بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس (corona virus) اور باجماعت نماز سے متعلق مسائل


سوال

آپ کے ہاں سے کرونا وائرس اور نماز سے متعلقہ مسائل پر بہت سے فتاویٰ جاری ہوئے ہیں، ان میں بعض فتاویٰ بہت طویل اور تفصیلی ہیں، میری گزارش ہے کہ کرونا وائرس اور مساجد میں نماز سے متعلق جامعہ کے فتاویٰ کا خلاصہ بتادیجیے؛ تاکہ میرے جیسے عام آدمی کے لیے ان سے راہ نمائی لینا آسان ہوجائے۔

جواب

1-   وبائیں اعلانیہ گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی کثرت  کی  وجہ سے آتی ہیں، مؤمنین کے لیے رحمت اور رفعِ درجات کا سبب اور گناہ گاروں کے لیے تنبیہ اور کفار کے لیے پکڑ ہوتی ہیں، مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی طور پر ذمہ داری ہے کہ وہ سچی توبہ کریں اور  استغفار و رجوع الی اللہ کا اہتمام کریں۔
2-    جس شخص میں یہ مرض موجود نہ ہو  اسے توہم کا شکار نہیں ہونا چاہیے، صرف وہم اور شک  کی بنا پر جماعت کی نماز ترک کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
3-   اگر  کسی مریض کے بارے میں وائرس کی تشخیص ہوجائے یا مسلمان، دین دار، ماہر اطباء کے بقول اس میں کرونا وائرس کی علامت موجود ہو اس کے لیے مرض کی وجہ سے جماعت چھوڑنے کی اجازت ہے اور جمعہ اس سے ساقط ہے، لہٰذا وہ گھر میں نماز پڑھے۔
4-   جن مریضوں میں مرض کی تشخیص ہوجائے ان کے لیے علیحدہ شفاخانہ (قرنطینہ وغیرہ) بناکر ان کے حقوق اور عزتِ نفس کا خیال رکھتے ہوئے ان کی تیمار داری کا انتظام کیا جائے، مریض اگر قرنطینہ وغیرہ میں ہو تو  اس کا خیال رکھنا ڈاکٹروں پر، اور اگر وہ گھر پر ہو تو اعزہ و اقارب پر لازم ہے۔ اگر ان کے لیے علیحدہ سہولیات کا انتظام نہیں کیا جاتا تو وہ بنیادی ضروریاتِ زندگی کے انتظام کے لیے بقدرِ ضرورت لوگوں سے میل جول رکھ سکتے ہیں؛ تاکہ وہ زندہ رہیں۔
5-    اگر کسی علاقے میں واقعۃً وبا عام ہوجائے اور اس وبا سے متاثر مریض موجود ہوں، تو وہاں کے صحت مند افراد جماعت میں شرکت کریں۔

6-   اگر  طبی مصلحت کی وجہ سے حکومت کی طرف سے جماعت میں عمومی شرکت پر پابندی ہو تو اس محلے کے چند لوگوں کو مسجد میں باجماعت نمازوں کا اہتمام کرنا ضروری ہوگا  اور اگر بلاعذر پورے محلے والوں نے مسجد میں باجماعت نماز ترک کردی تو پورا محلہ گناہ گار ہوگا؛ کیوں کہ مسجد کو اس کے اعمال سے آباد رکھنا فرضِ کفایہ ہے۔
7-    جو لوگ عذر کی وجہ سے مسجد کی جماعت میں شریک نہ ہوں انہیں چاہیے کہ وہ جماعت ترک نہ کریں، بلکہ پنج وقتہ فرض نمازیں گھروں یا دفاتر میں موجود افراد کی جماعت کے ساتھ ادا کریں۔
8-    اگر کسی ملک میں حکومتی سطح پر مساجد  بالکلیہ بند کردی جائیں تو  مقامی لوگوں کو چاہیے کہ وہ حکمت کے ساتھ انتظامیہ کواسلامی اَحکام کے بارے میں آگاہ کریں اور کوشش کریں کہ وہ پابندی ہٹادیں۔ اور جب تک پابندی رہے تو مسجد کی جماعت چھوٹ جانے کا عذر معتبر ہے، ایسی صورت میں کوشش کریں کہ گھر پر ہی باجماعت نماز کا اہتمام ہو۔
9-   اگر کسی ملک میں مساجد بالکلیہ بند ہوں یا بعض صحت مند افراد کو جمعہ کی نماز میں شرکت سے روک دیا جائے تو انہیں چاہیے کہ وہ مساجد کے علاوہ جہاں چار یا چار سے زیادہ بالغ مرد جمع ہوسکیں اور ان لوگوں کی طرف سے دوسرے لوگوں کی نماز میں شرکت کی ممانعت نہ ہو، جمعہ قائم کرنے کی کوشش کریں۔  شہر، فنائے شہر یا قصبہ میں جمعہ کی نماز میں چوں کہ مسجد کا ہونا شرط نہیں ہے؛ لہٰذا امام کے علاوہ کم از کم تین مرد مقتدی ہوں تو  بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی؛ چناں چہ جمعے کا وقت داخل ہوجانے کے بعد پہلی اذان دی جائے، سنتیں ادا کرنے کے بعد دوسری اذان دے کر امام خطبہ مسنونہ پڑھ کر دو رکعت نماز پڑھا دے،  چاہے گھر میں ہوں یا کسی اور جگہ جمع ہو کر پڑھ لیں، عربی خطبہ اگر یاد نہ ہو تو  کوئی خطبہ دیکھ کر پڑھے، ورنہ عربی زبان میں حمد و صلاۃ اور قرآنِ پاک کی چند آیات پڑھ کر دونوں خطبے دے دیں۔ (امام کے بیٹھنے کے لیے اگر منبر موجود ہو تو بہتر، ورنہ کرسی پر بیٹھ جائے اور زمین پر کھڑے ہوکر خطبہ دے تو بھی جمعہ کی نماز صحیح ہوجائے گی۔)
  اگر شہر یا فنائے شہر یا قصبہ میں چار  بالغ افراد جمع نہ ہوسکیں تو ظہر کی نماز  تنہا پڑھیں۔

10-     مریضوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنے  مقام (قرنطینہ یا گھر وغیرہ) پر ہونے والی جمعہ کی جماعت میں شریک ہوں یا ظہر پڑھ لیں، اسی طرح وہ افراد جو مریضوں کی تیمارداری میں مشغول ہوں اور ان کے چلے جانے سے مریض کو حرج ہو، ان کا بھی یہی حکم ہوگا۔
11-    مساجد اللہ کا گھر، ایمان کی علامت اور شعائر اللہ میں سے ہیں، اور ان کی جماعت اسلام کا شعار ہے، اور شعائر اللہ کا قیام اسلامی حکومت کی شرعی اور آئینی ذمہ داری ہے؛ لہٰذا  ان کو بند کرنا اور جمعے پر پابندی لگانا شرعاً جائز نہیں ہے، ورنہ مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق باقی نہیں رہے گا۔
12-    شریعت کی حدود میں رہ کر اسباب کے درجے میں دین دار ماہر اطباء (ڈاکٹروں) کی ہدایات اور احتیاطی تدابیر پر عمل کیا جائے۔
13-    کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ایسا ہینڈ سینیٹائیزر،صابن ، ہینڈ واش اور شیمپو وغیرہ مساجد کے وضو خانے میں رکھ سکتے ہیں جس میں انگور اور کھجور سے کشید کردہ الکوحل شامل نہ ہو، اور اس کے استعمال کے بعد نماز بھی ادا کرسکتے ہیں۔  (ورنہ دوبارہ ہاتھ دھونا پڑے گا۔)
14-     جتنی مدت مسلمان، دین دار، ماہر ڈاکٹر کرونا وائرس سے حفاظت کے پیشِ نظر ماسک پہننا تجویز کریں، اس دوران حفظانِ صحت کے اصول کے تحت اگر ماسک پہن کر نماز ادا کی جائے تو نماز ہوجائے گی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔  تاہم جب اس وائرس کا خدشہ ٹل جائے تو عام حالت میں ماسک پہن کر نماز ادا کرنا مکروہ ہوگا۔
15- کرونا وائرس کی وجہ سے حفظانِ صحت کے اصولوں کی رو سے  حکومتی احکامات  اور مسلمان دین دار ، تجربہ کا رڈاکٹر وں کے مشوروں کے مطابق اگر مسجد کی حدود کے اندر کچھ فاصلہ رکھ کر جماعت سے نماز پڑھ لی جائے تو  نماز ادا ہوجائے گی، تاہم فاصلہ رکھ کر کھڑے ہونا سنتِ متواترہ کے خلاف ہے۔

تفصیل کے لیے درج ذیل عنوانات پر مشتمل فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

کرونا وائرس (corona virus) کی وجہ سے نمازِ جمعہ چھوڑنے کا حکم اور اس حوالے سے شرعی اَحکام کی راہ نمائی

کرونا وائرس اور باجماعت نمازوں پر پابندی!

وبائی امراض کے خاتمہ اور بچاؤ کے لیے اعمال

وبائی امراض کے اسباب وحکمتیں اورمسلمانوں کے حق میں اس کا عذاب ہونے نہ ہونے سے متعلق تفصیل

کیا دوران نماز موجودہ وبا کی وجہ سے ماسک پہن لینا جائز ہے؟

نماز میں ماسک پہننا / صفوں کے درمیان وائرس کی وجہ سے فاصلہ زیادہ رکھنا

کرونا وائرس کی وجہ سے صف بندی کرتے ہوئے فاصلہ رکھنے کا حکم

گھر میں ایک بچے اور خواتین کے ساتھ جماعت کرانے کی صورت میں صف بندی کی ترتیب

گھر میں بچوں اور خواتین کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں