بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

دینی مدارس کا نصاب ونظام اور اہلِ علم کی ذمہ داریاں!

دینی مدارس کا نصاب ونظام 
اور اہلِ علم کی ذمہ داریاں!

 

محدث العصر حضرت علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ  نے پیشِ نظر تقریر آج سے اکسٹھ برس قبل مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کے ایک دینی ادارے ’’جامعہ امدادیہ کشور گنج‘‘ کے پانچویں سالانہ اجلاس (منعقدہ یکم ودو فروری ۱۹۶۰ء) میں خطبۂ صدارت کے عنوان سے ارشاد فرمائی تھی، اس نایاب تقریر میں ’’دینی مدارس کے نصاب ونظام اور اہلِ علم کی ذمہ داریوں‘‘ کے متعلق نہایت مفید تجاویز ارشاد فرمائی گئی ہیں، اس بنا پر اسی زمانے میں اسے قلمبند کرکے کتابچے کی صورت میں شائع کیا گیا تھا، جو اَب نایاب ہوچکا ہے۔ اہمیت کی بنا پر افادۂ عام کے لیے بینات کے اداریئے کے طور پر شائع کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہٖ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا ومن سیئات أعمالنا من یہدہ اللہ فلامضل لہ ومن یضللہ فلاہاديَ لہ وأشہد أن لا إلٰہ إلا اللہ وحدہ لاشریک لہ وأشہد أن محمدا عبدہ ورسولہ ، صلی اللہ علیہ وعلٰی آلہٖ وأصحابہٖ وأتباعہٖ وبارک وسلم تسلیمًا کثیراً کثیراً۔ أما بعد:

 برادرانِ اسلام!
اسلام کی تاریخ میں اب تک کوئی دور ایسا خطرناک نہیں گزرا، جیسا آج کل کا دور ہے اور اسلام کی تاریخ میں دینِ اسلام کی حفاظت کی ضرورت کبھی بھی اتنی شدید نہیں ہوئی جتنی آج کل ہے۔ اس میں شک نہیں کہ خلافتِ راشدہ کے بعد بلکہ آخری دور خلافتِ راشدہ میں دینِ اسلام کے خلاف فتنوں کا دور شروع ہوچکا تھا، لیکن مسلمانوں کے عقائد قربِ عہدِ نبوت کی وجہ سے اتنے پختہ تھے کہ عمل میں جیسی بھی تقصیر ہوجاتی عقائد میں تزلزل نہیں آسکتا تھا۔ نسلاً بعد نسلٍ ہر طبقہ میں عقائد کی پختگی جاری تھی اور ان طبقات میں کوئی بھی ایسی تحریک نہیں اُٹھی، جس کی زَد میں براہِ راست عوام آجائیں، علمی وذہنی طور پر خوارج اور پھر شیعہ، پھر مرجئہ وغیرہ کے فتنے پیدا ہوئے، لیکن عام امت میں اس کا اثر نہیں ہوا اور ایک جماعت تک سلسلہ محدود رہا۔ اگر تھوڑے عرصہ کے لیے اہلِ فتن کو کچھ عارضی عروج بھی نصیب ہوا تو انجام میں اس کی تباہی مضمر تھی اور بہت جلد صفحۂ ہستی سے فتنے ختم کردیئے جاتے تھے، اور اگر اثرونفوذ حاصل بھی ہوا تو علماء وامراء حق کی مساعی وتدابیر سے پھیلنے نہیں پاتے اور کم از کم اس کی مدافعت اور عقائدِ حقہ کی حفاظت اس سے زیادہ قوت کی ساتھ ہوتی تھی۔
اب دنیا کے حالات بدل گئے، نہ عوام میں عقائدِ اسلام کی پختگی رہی، نہ اربابِ حکومت میں وہ حفاظت کا جذبہ رہا۔ برطانوی دورِ حکومت میں جس تعلیم کی بنیاد رکھی گئی تھی، وہ اَب تک بجنسہٖ ہماری قوم پر مسلط ہے، ان سب اُمور کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمانوں کا تعلق دین سے برائے نام رہا۔ اگر اس پُر فتن دور میں دینی خدمت اور علومِ دین کی حفاظت کی طرف پوری توجہ نہ کی گئی تو جو اُس کا نتیجہ ہے، وہ ظاہر ہے :
ہوا مخالف و شب تار و بحر طوفاں خیز
گسستہ لنگر کشتی و ناخدا خفت است
برادرانِ ملت!
علمِ دین کیا چیز ہے؟ یہ انبیاء کرام علیہم السلام  کی وراثت ہے، جس کی حفاظت اُمت کے ذمہ فرض ہے۔ علم دین‘ دینِ اسلام کی حفاظت کا عظیم الشان مضبوط ومستحکم قلعہ ہے، اگر آج اس حصار کو آپ نے ہٹادیا تو پھر عالمِ اسباب میں کوئی حفاظت کا ذریعہ باقی نہیں رہے گا۔اسلام بھی اللہ تعالیٰ کی آخری وہ عظیم الشان نعمت تھی، جو اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والتحیۃ کو بواسطۂ رحمۃ للعالمین رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  دی گئی اور جو اَب سے ٹھیک ۱۳۶۹ سال پہلے عرب کی سرزمین میں وادیِ عرفات ۹/ذی الحجہ جمعہ کے دن عصر کے وقت اس یادگار بشارت کا اعلان کیاگیا: ’’ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا‘‘ یعنی ’’آپ کا دین مکمل ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کی نعمت پوری کردی گئی اور تمہارے لیے صرف اسلام کو دینِ معزّز بناکر پسند کرلیا گیا۔‘‘
إخواني في اللہ! 
آج کل دنیوی مدارس میں دینی تعلیم کے فقدان کے ساتھ ساتھ جو جدید تعلیم تقریباً دوسو سال سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں رائج ہے، اس کا دینِ اسلام کی بنیاد پر نہ ہونا اور طرح طرح جدید فتنوں کا -جن کی بنیاد الحاد ودہریت پر ہے- ملک میں پیدا ہوتے رہنا، یہ سب ایسی باتیں ہیں جنہوں نے دینِ اسلام کے زوال کے وہ سب خطرات پیدا کردیئے ہیں، جو آج تک قرونِ سابقہ میں کبھی نہیں ہوئے، اس لیے اگر آپ حضرات پوری توجہ نہ فرمائیں گے تو دینِ اسلام بہت تھوڑے دنوں کا مہمان ہے، عنقریب اس نعمت سے محروم ہوجائیںگے۔
دنیا میں ہمیشہ یہ قاعدہ رہا ہے اور یہی عقل کا تقاضا ہے کہ علاج کی اہمیت اُس وقت بڑھ جاتی ہے کہ جب مرض شدید ہو، اس لیے جس قدر تدارک وعلاج کی ضرورت اس وقت ہے، اتنی ضرورت کبھی نہیں ہوئی، خصوصاً مرض بھی شدید ہو اور مریض بدپرہیز یا مرض کو صحت سمجھے اور علاج نہ کرے، اس وقت موت نہ آنے میں کیا دیر لگتی ہے؟ میرا خیال ہے کہ آج ہماری قوم کی مثال ایسی ہی ہے۔
لادینی فتنوں کا علاج اور اُمتِ مسلمہ کا فریضہ
برادرانِ ملت! اِن ملحدانہ لادینی فتنوں کا علاج نہ موجودہ جدید تعلیم ہے، نہ اسکولوں اور کالجوں کی بُہتات، بلکہ یہ خود مستقل مرض ہے، اس کا علاج صرف تعلیمِ دین ہے اوردینِ اسلام کی حفاظت کے لیے سپاہی تیار کرنا ہے۔ یہ فرض پوری اُمتِ اسلامیہ کے ذمے ہے۔ تنہا علماء اس کے مسئول نہیں ہیں، لیکن اگر علماء امت نے احسان کیا اور اس فرض کو اُمت کی طرف سے بھی ادا کیا تو اُمت کو ان کا ممنونِ احسان ہونا چاہیے، نہ یہ کہ اُلٹا احسان فراموش ہوکر اُن کی ناقدری اور مخالفت پر اُتر آئیں۔ یہ زمانہ کی ستم ظریفی ہے کہ علماء تنہا اس بارِگراں کو اُٹھائیں اور مسلمانوں کا فرضِ کفایہ ادا ہو اور ہاتھ بھی نہ بٹائیں، پھر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جو مخیّر ومخلص حضرات مدارسِ اسلامیہ کی اعانت کرتے ہیں، وہ عام طور پر زیادہ ترمالِ زکوٰۃ سے کرتے ہیں، اموالِ زکوٰۃ درحقیقت وہ اموال ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہوچکے ہیں، اممِ سابقہ میں آسمان سے آگ اُتر کر اُن کو جلا دیا کرتی تھی، یہ شریعتِ محمدیہ کی برکت سے فقراء کے کام میں استعمال کے قابل ہوگئے، علماء امت کا کتنا بڑا احسان ہے کہ انہوں نے اس مال کو اپنی مخلصانہ تدبیروں سے حصولِ علم اور قیامِ مدارس کا ذریعہ بنادیا۔ اربابِ ثروت کو ان علماء کا بے حد ممنون ہونا چاہیے، جنہوں نے اُن کے اس میل کچیل کو لے کر ایمان کی روشنی اور دین کی بقا کے لیے وسیلہ بنادیا۔
دینِ اسلام کی حفاظت صرف علمِ دین کی بقا میں ہے
برادرانِ اسلام! اگر آپ مسلمان ہیں اور الحمد للہ کہ مسلمان ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کی ذریت واولاد بھی اس نعمت سے بہرہور ہو تو آخر اس نعمت پر باقی رہنے کے لیے آپ نے کیا سوچا ہے؟ کیا تدبیریں اختیار کی ہیں؟ جب آپ کا عقیدہ ہے کہ دنیا فانی ہے اور عمرِ انسانی کے فانی ہونے میں تو کوئی عاقل شبہ بھی نہیں کرسکتا۔ موت کا نام بھی قرآن کریم نے ’’یقین‘‘ رکھا ہے: ’’وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ‘‘ میں مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں ’’یَقِیْن‘‘ سے مراد موت ہے، اتنی یقینی چیز کے بارے میں آپ کے طرزِ عمل کا فیصلہ کیاہے؟ اگر انسان عمرِ طبعی تک پہنچ بھی جائے جب بھی یہ زندگی محدود ہے، زیادہ سے زیادہ ستر پچھتّر برس، پھر اس عمرِ طبعی تک سب کا پہنچنا بالکل موہوم ہے، نہ معلوم موت کب آتی ہے، جب یہ سب باتیں یقینی ہیں کہ انسان کی زندگانی محدود ہے اور وہ بھی موہوم ہے، اجل کا پتہ نہیں، تو آپ اس محدود وموہوم حیات کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں؟ اب آیئے! آخرت کی زندگی پر غور کیجئے، ابد الآباد کی زندگی یعنی نہ ختم ہونے والی زندگی ’’فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ‘‘ پر آپ کا ایمان ہے، اب بتلایئے کہ کیا آپ اپنی اولاد کے لیے اتنی کوشش بھی نہیں کریںگے جتنی کوشش دنیوی راحت کے لیے کرتے ہیں؟ کیا آخرت کی دائمی زندگی اتنی کوشش کی بھی مستحق نہیں؟ پھر یہ کوئی ضروری نہیں کہ جو مال ودولت اپنی اولاد کے لیے جمع کی ہے، وہ صحیح طور پر اس سے فائدہ بھی اُٹھا سکے گی یا نہیں؟ ہزاروں مثالیں اور بہتیرے حوادث ایسے موجود ہیں کہ باپ کی دولت بیٹے کے کام میں نہیں آئی، آخر آپ ایسی دولت کیوں جمع نہیں کرتے جو کبھی اُن سے جدانہ ہو اور ہمیشہ آپ کے کام میں آئے، یعنی وہ نعمتِ ایمان، نعمتِ اسلام، نعمتِ صلاح وتقویٰ سے بہرہ ور رہے۔ 
اگر یہ سب حقائق یقینی ہیں تو پھر غور کیجئے کہ اگر علم دین کے یہ مراکز نہ ہوں تو آخر اس دینِ اسلام کی حفاظت کیسے ہو؟ اسلام پر آج چار سمتوں سے حملے ہورہے ہیں، ایک طرف یورپ کی تعلیمِ الحاد ودہریت اور اس سے زیادہ یورپ کی شہوانی زندگی کے عفریتِ تعیُّش کا طوفان مسلط ہے، دوسری طرف کمیونزم کی وباء ہے، جس کی تائید عام غربت وافلاس سے عملی طور پر ہو رہی ہے۔ تیسری طرف عیسائیت کا وہ خطرناک جال ہے، جن کو یورپ وامریکہ کی مشنریاں پھیلا رہی ہیں اور جس پر سالانہ لاکھوں نہیں، کروڑوں روپیہ خرچ کیا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ عام مسلمانوں کی غربت وتنگدستی اور پھر دین سے جہالت اور آخرت کی زندگی سے فراموشی کی وجہ سے ان کو وہ کامیابی حاصل ہو رہی ہے، جس کا تصور بھی ایک حساس مسلمان کے لیے پیغامِ موت ہے۔ چوتھی طرف ملک کے اندر مرزائیت اور شیعیت کے فتنے، پھر پرویزیت کا فتنہ اور ثقافتِ اسلامی کے نام فواحش وعریانی اور تھیٹرو سینما کے فتنے، ملحدانہ جرائد ولٹریچر کی کثرت، وغیرہ وغیرہ، اس کثرت سے خطرناک فتنے موجود ہیں کہ اگر علمِ دین کے ان مراکز کو اس کسمپرسی کی حالت میں چھوڑا گیا اور اُن کی اعانت سے دردناک تغافل برتا گیا، تو پھر اسلام کا اللہ تعالیٰ ہی محافظ۔ اگر اسلام کا دعویٰ آپ حضرات کا سچا ہے اور دینِ اسلام سے محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی آخری نعمت کی قدر ہے اور رحمۃ للعالمین  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ناقابلِ فراموش مجاہدانہ سرگرمیوں کا احساس ہے اور یہ دین صرف علماء کا نہیں، بلکہ عام مسلمانوں کا دین ہے اور یہ فرض تنہا علماء کا نہیں، بلکہ سب مسلمانوں کاہے، تو پھر آیئے اور پورے اخلاص و محنت و جانفشانی سے اس کی حفاظت کی طرف توجہ کیجئے اور علماء کی رہنمائی میں اس کی معاونت کو اپنی سعادت سمجھئے، ورنہ یاد رکھئے کہ قیامت کے دن میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے علماء دین کے گریبانوں میں ہاتھ ڈال کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ قدس میں آپ کی شکایت کریںگے کہ ان اربابِ دولت نے آپ کی دی ہوئی دولت سے ہماری کوئی اعانت نہیں کی۔ 
آخرت پر آپ حضرات کا ایمان کامل ہے اور یقین محکم ہے تو پھر اس جواب دہی کے لیے تیار رہیے اور اس وقت نہ صرف علماء کرام بلکہ حضرت خاتم الانبیاء رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  اور دینِ اسلام اور قرآن کریم سب کے سب حتیٰ کہ آپ کے ہاتھ پاؤں بھی آپ کے خلاف شہادت دیںگے، اس وقت آپ کی کیا حالت ہوگی؟ یہ افسانے نہیں ہیں، یہ مبالغہ آمیز خطاب نہیں ہے، دینِ اسلام کے موٹے موٹے کھلے ہوئے حقائق ہیں، ہر مسلمان کو ان سے باخبر رہنا چاہیے۔
علماء کرام کی خدمت میں چند گزارشات
برادرانِ اسلام! میں چند حقائق اپنے برادرانِ علم کی خدمت میں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں، جس طرح اللہ تعالیٰ نے بدنِ انسانی کے لیے کچھ اعضاء آلیہ مقرر کیے ہیں، جو بمنزلہ خدام اور پاسبان کے ہیں، جیسے ہاتھ پاؤں وغیرہ اور کچھ اعضاء رئیسہ ہیں جو مخدوم اور آقا کے درجے میں ہیں، جیسے دل، دماغ اور جگر، اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر بھی عام افراد کو بمنزلہ عام اعضاء کے بنایا ہے اور علماء کرام کو بمنزلہ قوائے رئیسہ کے بنایا ہے۔ اگر قوائے رئیسہ کا نظامِ صحت درست ہے تو اعضاء آلیہ کا نظام بھی درست ہوگا۔ اگر قوائے رئیسہ کے اندر خلل ہے تونظامِ بدن میں بھی ضروری خلل ہوگا، پھر ان قوائے رئیسہ کے اندر جس طرح قلب کی حیثیت سلطان کی ہے، اسی طرح علماء کے اندر بھی وہ علماء جنہوں نے خدمتِ علم دین واصلاحِ عوام کا بیڑہ اُٹھایاہے، ان کی حیثیت بمنزلہ ’’دل‘‘ کے ہے۔ بقیہ قوائے رئیسہ کی صحت کا دار ومدار بھی اس قلب کی صحت وحیات پر ہے، اب اگر یہ قلب جو بمنزلہ سلطان کے ہے، اس کے مزاج میں کوئی خرابی ہوگی تو پوری رعیت تباہی کی طرف جائے گی۔ صحاحِ ستہ میں نعمان بن بشیرؓ کی طویل حدیث میں جو ایک مضغہ ہے: ’’ألا وإن في القلب مضغۃً إذا صلحت صلح الجسد کلہ وإذا فسدت فسد الجسد کلہ ألا وہي القلب‘‘ اس کا یہی مطلب ہے، جب یہ بات واضح ہوگئی کہ علماء دین وخادمانِ دین کی مثال قوائے رئیسہ اور دل کی ہے تو ظاہر ہے کہ عوام کی خرابی تو اعضاء کی خرابی کی مانند ہے، جس کا علاج بہ نسبت دل ودماغ کے بہت آسان ہے، ان کا علاج بھی آسان، آپریشن بھی آسان، لیکن اگر دل ودماغ کا علاج یا آپریشن ہو تو کتنا مشکل مرحلہ ہے، بڑے بڑے ماہر انِ طب کی تلاش رہتی ہے۔ نیز اعضاء کی خرابی کا احساس بہت آسان، لیکن دل ودماغ کی خرابی کا احساس بہت مشکل، اس لیے ان کا تعلق ظاہر سے ہے اور دل ودماغ کا تعلق باطن سے ہے، نیز عام طور سے عوام جن معاصی کے اندر مبتلا ہیں، ان کی معصیت بھی ظاہر وباہر ہے، لیکن علماء جن معاصی کے اندر مبتلا ہیں وہ نہایت مخفی، کیونکہ علماء جب بمنزلۂ دل کے ٹھہرے تو ان کے امراض بھی دل کے ہوںگے، اس لیے ان کا احساس بھی مشکل اور علاج بھی مشکل، جب یہ بات واضح ہے تو اب اس سے یہ بات بھی بالکل واضح ہوگئی کہ علماء کی اصلاح عوام کی اصلاح سے کہیں زیادہ ضروری ہے۔ علماء کے اندر حُبِ جاہ، حُبِ مال، حسد، بغض، عجب، ریاء اور غیبت‘ یہ امراض عوام سے کہیں زیادہ ہیں، خصوصاً تحاسد وتباغض کا مرض اتنا شدید ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے علماء اربابِ دنیا کے سامنے ذلیل وحقیر ہوگئے ہیں۔
علماء کے امراض اور مدارس کے غلط تنافس کا مختصر علاج‘ مدارسِ عربیہ اسلامیہ کا اتحاد ہے
إخواني في اللہ! علماء الأمۃ! وسادۃ القوم!
اس وقت جو کچھ نیازمندانہ گزارش کی گئی ہے، اس میں قدرے جرأت وجسارت سے کام لیا گیاہے، اس لیے کہ آپ حضرات نے مجھے یہ موقع دیا کہ اس عظیم الشان مجمع میں اپنے ۔۔۔۔۔ ناقص خیالات عرض کروں، یہ آپ کا اعزاز واکرام ہے جو ایک مہمان کی آپ نے قدرافزائی کی ہے۔ اس اظہار کا مقصد یہ نہیں کہ العیاذ باللہ میں ان عیبوں سے بری ہوں اور میں اپنے کو مزکّٰی سمجھتا ہوں۔ ربِ کعبہ کی قسم! ’’فَلاَ  تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ط ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی‘‘ ، ’’بَلِ الْاِنْسَانُ عَلٰی نَفْسِہٖ  بَصِیْرَۃٌ وَّ لَوْ اَلْقٰی مَعَاذِیْرَہٗ‘‘ اور اس نوع کی دوسری آیتیں سب پیشِ نظر ہیں۔
ہاں! میں بھی آپ کی جماعت کا ایک فرد ہوں اور جماعت میں جو امراض ہوںگے افراد اُن سے کیسے بری ہوںگے؟ میری اس گزارش کا پہلا مقصد تو اپنے نفس کو متنبہ کرناہے اور اپنے امراض کا احساس پیدا کرناہے۔ دراصل ان امراض کی جڑ اخلاص کا فقدان یا قلتِ اخلاص ہے۔
اور میں سمجھتاہوں کہ مشرقی پاکستان کے کل باشندے اور خصوصاً اہلِ علم کا طبقہ تواضع واخلاص میں ممتاز ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی بڑی نعمت ہے، لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ سب کو کمال حاصل ہوگیا اور سب حضرات اپنی اصلاح کے تصور سے بالاتر ہوگئے ہیں، اگر ’’اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ کہنے کے مامور انبیاء  علیہم الصلوۃ والسلام ، خیارِ اُمت اور صحابہؓ بھی ہیں تو اس کا مطلب بھی یہی ظاہر ہے کہ انسان جتنے بھی مدارج طے کرے، اس کے عروج کے لیے کوئی حد نہیں:
ای برادر بے نہایت در گہیست
ہرچہ بروے می رسی بروے مایست
اس لیے ہمیں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنے میں کیا تردد ہوسکتا ہے؟! بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ ہم انفرادی زندگی اسلام اور علمِ دین کی خاطر چھوڑ کر اجتماعی زندگی کی طرف قدم اُٹھائیں اور میرے ناقص خیال میں غلط تنافس اور تحاسد کے ختم کرنے کا یہ ایک مختصر راستہ ہے: ’’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا‘‘ و ’’ید اللہ علی الجماعۃ‘‘ پیشِ نظر رکھ کر اس طرف قدم اُٹھانے کی ضرورت ہے۔ سیاسی پلیٹ فارموں کے ذریعہ اتحاد کی ضرورت نہیں، صرف علمِ دین کے مفاد کے پیشِ نظر اتحاد کی ضرورت ہے۔ اگر آج ہماری تعلیمات ونصابِ تعلیم ونظامِ تعلیم میں اتحاد اور ہم آہنگی پیدا ہوجائے اور ایک مرکز کے تحت ہمارے مدارس کا نظام عمل میں آجائے تو اس کے ثمرات ان شاء اللہ العزیز! بہت جلد دیکھے جائیںگے۔
خدا کا شکر ہے کہ آپ حضرات نے اس کی طرف توجہ کی ہے اور ’’مؤتمر المدارس الإسلامیۃ‘‘ کی داغ بیل ڈال کر ایک مفید وفاق و وحدت کی طرف قدم بڑھایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اسی طرح مغربی پاکستان کے اربابِ مدارس کو بھی اس طرف توجہ ہوئی اور ’’وفاق المدارس العربیۃ الإسلامیۃ‘‘ کے نام سے ایک مرکز پر جمع ہونے کی بنیاد پڑ گئی، اگرچہ اس کارِ خیر میں سبقت آپ حضرات کو حاصل ہے اور شرفِ تقدم کی فضیلت آپ کو حاصل رہی ہے اور حضرت مولانا اطہر علی صاحب دامت برکاتہم کی مساعیِ جمیلہ سے یہ نہایت ہی مفید بنیاد پڑ گئی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا بہت بہت شکر ہے کہ پاکستان کے دونوں بازؤوں میں اس ضرورت کے احساس کے پیشِ نظر اور وقت کے اس اہم تقاضے کے پیشِ نظر یہ کام شروع ہوگیا۔ ہرملک کی مقامی خصوصیات کے پیشِ نظر اور تنظیم کی سہولت کی خاطر اس کی ضرورت ہے کہ ہر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان اپنی الگ الگ تنظیموں کو مکمل کریں، اس وقت مغربی پاکستان کے مدارس جو وفاق المدارس سے الحاق کر چکے ہیں، ان کی تعداد تقریباً ڈیڑھ سو ہوگئی ہے۔ ان میں تین قسم کے مدارس ہیں: ابتدائی، وسطانی اور فوقانی۔ ان دو تنظیموں اور دونوں وفاقوں کی تکمیل کے بعد اب ضرورت ہے کہ آپس میں اتفاق کے اصول طے کرلیے جائیں، تاکہ متفقہ اصول پر دونوں وفاق کام کریں، چنانچہ وفاق المدارس العربیہ جس کا اجلاس وسط جمادی الاخریٰ ۱۳۷۹ھ (وسط دسمبر ۱۹۵۹ء) میں ہوا تھا، جس میں مجلسِ عاملہ نے راقم الحروف کو اس مقصد کے لیے وکیل بنایاہے کہ میں ان اصول کے متعلق ’’مؤتمر المدارس العربیۃ‘‘ سے فیصلہ کرلوں۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ وقت کا اہم تقاضا بہت آسانی اور خوش اسلوبی سے طے ہوا۔
نصابِ تعلیم: ابتدائی ، وسطانی، انتہائی
محترم حضرات! علمِ دین تو فرضِ کفایہ ہے، لیکن اسلام فرضِ عین ہے، اس لیے فرضِ عین کی طرف توجہ کی بہت ضرورت ہے، ہمیں اس کی بہت ضرورت ہے کہ ہماری نسل اسلام پر قائم رہے، اس لیے ہمیں ابتدائی تعلیم کی بہت ضرورت ہے کہ اسلامی تعلیمات پر اس کی بنیاد ہو اور بقدرِ ضرورت مادری زبان میں اور روز مرہ دنیوی زندگی کے لیے بھی مواد فراہم ہوں اور ابتدائی تعلیم میں دین ودنیا کی تفریق ختم کی جائے۔ مجھے مسرت ہے کہ ’’مؤتمر المدارس العربیۃ‘‘ کے ابتدائی نصابِ تعلیم میں اس لفظ کی رعایت کی گئی ہے، میں نے بغور پڑھا ہے۔ البتہ نصاب جو بھی ہو، وہ آخری حرف نہیں ہے، ہرسال اس پر نظر ثانی کی جائے گی، جو خامی معلوم ہوگی اس کی اصلاح کی جائے گی اور جو وقت کی ضرورت ہو اس کے پیشِ نظر اس میں ترمیم کی جائے گی۔
ابتدائی تعلیم کے بعد وسطانی تعلیم جو ہرعالمِ دین کے لیے ضروری ہو، اس کا زمانہ مختصر ہو اور کتابیں بہت نافع داخلِ نصاب ہوں۔ ’’مؤتمر المدارس‘‘ کا نصاب اس حیثیت سے میرے خیال میں زیادہ قابلِ ترمیم ہے، اس سلسلے میں بنیادی نقطے میں زبانی عرض کردوں گا۔
انتہائی تعلیم میں تنوُّع کی ضرورت ہوگی، تکمیل یا تخصص یا ڈاکٹریٹ ان کے درجات مختلف ہونے چاہئیں، تاکہ ہر شخص اپنے مزاج اور طبعی مناسبت اور مقامی ضرورت کے پیشِ نظر درجۂ تخصص کو انتخاب اور اختیار کرے، تخصصات، درجاتِ دعوت وارشاد یا تبلیغ کے لیے انگریزی زبان کا ہونا بھی ایک حد تک ضروری ہے، اس لیے اس درجہ میں اجنبی زبان کا سیکھنا ضروری ولازمی کرنا چاہیے۔
حضرات علمائے کرام! ان نصاب ہائے تعلیم کے علاوہ ایک مختصر رسالۂ نصاب کی ضرورت ہے، ان لوگوں کے لیے جو حضرات پورے عالم ہونے کے لیے فارغ نہیں ہیں اور اُن کی آرزو ہے کہ دینی معلومات سے بہرۂ وافر حاصل کریں، ان کا مقصد صرف اپنی اصلاح کرنی ہے اور اپنی ضرورت کے لیے علمِ دین سیکھنا چاہتے ہیں، ان کے لیے ایک مختصر نصاب جس میں عقائد، احکام، اخلاق کا حصہ تو اردو یا مادری زبان میں ہو، البتہ عربی ادب اور قرآن وحدیث سے متعلق دو ایک مختصر کتابیں عربی میں رکھی جائیں اور عربی ادب پر عبور کرایا جائے، تاکہ بقدرِ ضرورت لکھ بول سکیں۔ اس طرح ہزاروں وہ دیندار تاجروں کا طبقہ علمِ دین سیکھ لے گا اور اس کا جو نفع ہوگا وہ حیرت انگیز ہوگا۔ اس طرح عوام وعلماء میں ایک قوی رابطہ پیدا ہوگا اور غیر علماء بھی علماء کی علمی جد وجہد سے واقف ہوکر ان کے دل سے قدرداں ہوسکیں گے، لیکن یہ مقصد جب ہوگا کہ ’’یسرا ولاتعسرا ، بشرا ولاتنفرا‘‘ کے اصول پر کام کریں گے۔
تبلیغِ دین اور علماء کی تقصیر
محترم حضرات! جہاں تک مدارس کا تعلق ہے، اس کا دائرہ جتنا بھی وسیع ہو پھر بھی محدود ہے، اس کا فائدہ جتنا بھی زیادہ ہو پھر بھی کم ہے، غرض اس کا نفع عام نہیں ہوسکتا۔ میں بلاجھجک خوف لومۃ لائم کہتا ہوں کہ جب تک علماء عوام کے اندر تبلیغ کا منظم سلسلہ شروع نہیں کریںگے، اس وقت تک انسانیت ترقی نہیں کرسکتی۔ عوام کی خدمت کرنا، ان سے رابطہ پیدا کرنا، ان کی دینی رہنمائی شفقت واخلاص سے کرنا، یہ انبیاء کرام علیہم السلام  کی سنت ہے، اس لیے علماء کو خصوصاً اربابِ مدارس کو تنظیم کے ساتھ طلبہ کو ہدایات دے کر اپنے قریبی دیہات میں ہر جمعہ کی رات بھیجیں، تاکہ اگر ایک طرف عوام کی رہنمائی ہو اور دینی فریضہ ادا ہو تو دوسری طرف طلبہ کو بولنے کی عادت بھی ہو اور ان میں زورِ خطابت بھی۔ اس خدمت کی انجام دہی سے اربابِ مدارس بے حد غافل ہیں اور میں خود بھی اس بارے میں اپنی تقصیر کا بے حد احساس کررہا ہوں، طلبہ کو تقریر کی مشق کرانے کے لیے ہفتہ وار باقاعدہ نظام ہر مدرسہ میں مقرر ہو۔ اساتذہ کی نگرانی میں مختلف جماعتیں قائم ہوں، ہفتہ وار مضمون دیا جائے اور امدادی کتابیں دی جائیں۔ الغرض نہایت باقاعدگی کے ساتھ اور التزام کے ساتھ یہ سلسلہ جاری کرنا چاہیے اور درس کو اس روز اہمیت نہ دی جائے۔ الحمد للہ! کہ ہم نے مدرسہ میں اس کا باقاعدہ اجراء کیا ہے، اس کی تفصیلات زبانی پیش کروںگا۔
تحریر وتقریر کا شعبہ
حضرات! آج کل بڑا فتنہ یہ ہے کہ جو لوگ اردو یا انگریزی یا بنگلہ ادب میں ماہر ہوتے ہیں، عموماً اُن کو ملحدین اپنے ملحدانہ خیالات کا بہترین ذریعہ بنالیتے ہیں، پھریہ لوگ سب سے پہلے ملک کے ان نوجوانوں کو جو دینی مسائل سے ناواقف ہیں، اپنے زورِ بیان اور ادب سے متاثر کرتے ہیں، پھراسی راستہ سے عوام کو ان کے دلوں میں تشکیک پیدا کرکے بے دین بناتے رہتے ہیں، اس لیے اب وقت کا تقاضا ہے کہ اپنی مادری زبان اور اردو ادب کے اندر پوری مہارت حاصل کی جائے اور ادبی اسلوبِ نگارش اور طرزِ بیان کو جاذب ودلکش اور مؤثر و دلچسپ بنایا جائے۔ علماء اگر چاہتے ہیں کہ دین کی مفید ومؤثر خدمت انجام دیں تو ضرورت ہے کہ وقت کے اس زیور سے آراستہ ہوں۔ آخر موسیٰ  علیہ السلام  تو اولوالعزم پیغمبر تھے اور اُن کی قوتِ قدسیہ وکمال میں کیا شک تھا؟! دوسرے طرف اللہ تعالیٰ کی تائیدِ غیبی ساتھ تھی اورمعجزات وآیاتِ بینات بھی اللہ تعالیٰ نے دیئے تھے، ان سب باتوں کے باوجود بارگاہِ ربوبیت میں ان کی درخواست اور اپنے بھائی ہارون  علیہ السلام  کی نبوت کی سفارش صرف اس لیے تھی کہ ’’ھُوَ اَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا‘‘ فرماکر تبلیغ کے لیے اور اس کے مؤثر ہونے کے لیے فصاحتِ لسان کی اہمیت کی یادگار قائم کردی اور وہ بھی اپنے لیے دعا فرمائی: ’’رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ وَیَسِّرْلِیْٓ اَمْرِیْ وَاحْلُلْ  عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْ یَفْقَھُوْا قَوْلِیْ‘‘ (اے پروردگار! میرا سینہ اظہارِ حق کے لیے کھول دیجئے اور تبلیغ کی خدمت میرے لیے آسان کردیجئے اور میری زبان کی گرہ کھول دیجئے، تاکہ لوگ میری بات خوب سمجھ سکیں) اور تبلیغ انبیاء  علیہم السلام  کا منصب ہے، اسی لیے ضرورت ہے کہ علماء ، خطباء بھی ہوں اور وقت کے تقاضے نے یہ بات اضافہ کردی کہ اُدباء بھی ہوں اور صاحبِ قلم بھی ہوں تو اب چاہیے کہ ہرعربی مدرسہ میں ان چیزوں کے سکھانے کے لیے اور تربیت دینے کے لیے مستقل شعبہ قائم کیا جائے اور اس طرف پوری توجہ کی جائے اور اساتذہ کرام باقاعدہ درس وتدریس کی طرح اس پر اپنی توجہ مرکوز کریں۔ باقاعدہ ہر ہفتہ عنوان دے دیا کریں اور اس کے لیے امدادی کتابیں مطالعہ کے لیے دے دیا کریں۔ الغرض اس طرح خدمتِ خلق کے لیے اپنے مدارس سے مقرر، ادیب، مقالہ نگار، صحافی، مدیر اور مصنف تیار کریں۔
علومِ عصری، تواریخ وسیر کی اہمیت
حضرات! علومِ اسلامیہ دینیہ جو مقاصد میں داخل ہیں، وہ قرآن وحدیث، فقہ واصولِ فقہ اور میراث وغیرہ یہ تو بہرحال ضروری ہیں اور اُن کے صحیح فہم کے لیے علومِ آلیہ یا علومِ عربیہ بھی ضروری ہیں اور اُن سے چھٹکارا نہیں، لیکن ہرزمانہ میں بعض خاص علوم کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ عصرِ حاضر میں ادب وتاریخ کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے اپنے نصابِ تعلیم میں ابتداء سے انتہاء تک ہر درجہ میں سیرتِ نبویہ اور تاریخِ اسلام، پھر تاریخِ عام اور تاریخِ علوم کی طرف توجہ دینے کی بے حد ضرورت ہے، جس طرح الحاد ودہریت نے اسلامی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، اسی طرح تاریخِ اسلام کو بھی ملحدانہ کوشش نے بہت کچھ مسخ کردیا ہے، اس لیے تاریخِ اسلام میں محققانہ بصیرت پیدا کرنے کی بہت ضرورت ہے۔ علومِ جدیدہ یا علومِ عصریہ کی اتنی ضرورت نہیں جتنی اسلامی تاریخ اور تاریخِ اقوام وبلاد کی ضرورت ہے۔ آج دنیا کی ساری قومیں اپنے ماضی کے معمولی اور غیر اہم نقوش ورسوم، نیز غلط اور غیر تاریخی، فرعی اور جزئی امور کے احیاء وابقاء کے کام میں سرگرم ہیں، لیکن مسلمان اپنے ایامِ رفتہ کے بے نظیر اور حیرت انگیز تاریخی حقائق اور ناقابلِ فراموش اصول اور شاندار کارناموں سے اپنی نسل کو غافل بنارہے ہیں ، علماء کرام کا طبقہ اس میں سب سے پیچھے ہے، اس لیے مدارسِ عربیہ اسلامیہ کا یہ فریضہ ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے پوری کوشش کریں۔ اسی تقصیر کی وجہ سے علماء کرام کے بہت سے علمی کمالات اور انقلابی کارنامے اپنا صحیح مقام حاصل نہ کرسکے:
لمثل ہٰذا یذوب القلب من کمد
إن کان في القلب إسلام و ایمان
حالانکہ تاریخ علمی اعتبار سے علم کہلانے کے قابل بھی نہیں، لیکن جاہلوں نے اس پر قبضہ کرلیا ہے اور عوام بھی سمجھتے ہیں کہ علماء در اصل وہی ہیں جو مؤرخ ہیں، اس لیے دینی وعلمی مصالح کے پیشِ نظر وقت کا تقاضا ہے کہ اسلامی علوم کے طلبہ ادب وتاریخ میں مہارت پیدا کرنے کے لیے جان توڑ کوشش کریں۔
معلوماتِ عامہ
حضرات! مدارسِ عربیہ اسلامیہ میں ایک اور بات کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ دورِ حاضر کا تقاضا ہے دنیا میں صحیح خدمت اور دینی وعلمی خدمت گزاری کے لیے جس طرح علومِ دینیہ کی مہارت کی حاجت ہے، اسی طرح معلوماتِ عامہ (جنرل نالج) کی بھی ضرورت ہے، اگرچہ دونوں میں فرقِ مراتب ضرور ہے، لیکن اس کے مستحسن ہونے میں کلام نہیں ہوسکتا، درحقیقت یہ عصرِ حاضر کی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سلسلہ میں علومِ جدیدہ کے اہم رائج الوقت مصطلحات اور اُن کے موضوعات بھی آجاتے ہیں اور اس کے تحت بہت سے فرقے اور فتنے جو نئے نئے پیدا ہوئے ہیں، ان سے بھی واقفیت ہوجاتی ہے، جو درحقیقت علمِ کلام جدید کے مبادی ومقدمات ہیں۔ جدید تعلیم یافتہ حضرات انہی معلوماتِ عامہ میں  تقدم کی وجہ سے دنیا کو مرعوب کرلیتے ہیں، حالانکہ ٹھوس علوم اور گہرے علمی مباحث میں ان کا پایہ بہت کمزور رہتا ہے۔ بہرحال علماء کو چاہیے کہ وہ ا س کمی کو پورا کرنے کی طرف بھی متوجہ ہوں اور ضرورت ہے کہ مدارس میں اس کا بھی خاص اہتمام کیا جائے۔ معلوماتِ عامہ کے سلسلے میں ضروری ہے کہ ہر مدرسہ میں ایک دارالمطالعہ (لائبریری) ہو اور اس میں اردو، عربی، بنگلہ کے اخبارات ورسائل ہوں، جہاں طلبہ باقاعدہ ایک مقرر وقت پر جاکر مطالعہ کریں، اپنی معلومات میں اضافہ کرتے رہیں، اس طرح وہ دنیا کے احوال سے باخبر رہیںگے۔ اس کے بعد ان سے توقعات قائم کی جاسکتی ہیں کہ وہ دنیا کے مزاج کے مطابق دینی خدمت کرسکیں گے۔ صرف خانقاہی زندگی سے عوام کی اصلاح نہ ہو سکے گی، البتہ اپنی اصلاح کے لیے اس کی ضرورت میں کوئی کلام نہیں۔
معیاری جریدے کی اہمیت
برادرانِ ملت! نوجوانانِ نسل تک اپنی آواز پہنچانے کے لیے، صحیح مسلک کی ترجمانی کے لیے اور ملحدانہ فتنوں کی جواب دہی کے لیے ضروری ہے کہ ہر دینی درس گاہ میں ایک معیاری ماہنامہ ہو، جس میں اپنے واقعات وحقائق، اسلامی معلومات، تبلیغی مضامین اور فقہی احکام کا سلسلہ جاری کیا جائے، اس کے لیے مستقل نظام ہو، رفتہ رفتہ یہی چیز ترقی کرکے مستقل تالیف وتصنیف کا ادارہ بن جائے گا۔ اساتذہ مضامین لکھیں، جدید فارغ التحصیل اور قابل طلبہ اساتذہ کی نگرانی میں مقالات لکھیں، جہاں عام اُمت کو اس کا فائدہ پہنچے گا، وہاں اساتذہ وطلبہ بھی اس سلسلہ سے مستفیض ہوں گے اور تالیفی زندگی کی بنیاد یہیں سے شروع ہوجائے گی۔ بہرحال اس کی افادیت روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے، انکار کی مجال نہیں۔
دینی درس گاہوں کی ضرورت اور اُمت کے ذمہ فرائض
برادرانِ اسلام! یہ جو کچھ عرض کیاگیا ہے کہ مدارسِ دینیہ کو کس انداز سے خدمتِ دین کی ضرورت ہے اور کتنے کتنے شعبے کھولنے کی ضرورت ہے، ان مہمات کے انصرام وانتظام کے لیے جب تک مالی حیثیت کو مضبوط ومستحکم نہ بنایا جائے، اس وقت تک یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکے گا۔ اگر اربابِ ثروت اپنے ذمے مالی امداد لے کر ان اربابِ مدارس کو اس فکر سے سبکدوش کردیں تو یہ خدمات انجام پذیر ہوسکیں گی۔ علماء پر بڑا ظلم ہے اور ناقابلِ برداشت بوجھ ہے کہ وہ مالیات کی فراہمی کا بھی انتظام کریں اور علمی خدمات کی تدبیروں میں بھی لگے رہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کام نامکمل رہ جاتے ہیں۔
ہردینی درس گاہ میں دو شعبے ہوں
اس علمی نظام کی حفاظت کا طریقہ یہ ہے کہ ہر درس گاہ میں علمی شعبہ اور مالی شعبہ دونوں الگ الگ قائم رہیں۔ علمی شعبہ کا نگرانِ اعلیٰ مہتمم ہوگا۔ اس کا فرض صرف اتنا ہونا چاہیے کہ وہ مالی شعبہ سے مصارف کا اندازہ لگاکر مصارف کا مطالبہ کرے اور ان کے مطالبہ پر ان کے لیے اس کا انتظام ہو۔ فراہمیِ مال، اس کی حفاظت، خزانے میں ادخال واخراج، یہ سب کام مالی شعبہ کے ذمہ ہو اور اس تقسیمِ عمل کی بے حد ضرورت ہے، ورنہ سارا نظام مختل ہوگا۔ مالی شعبہ کو علمی شعبے میں دخل دینے کی حاجت نہیں اور علمی شعبہ کو مالی شعبے میں دخل دینے کی حاجت نہیں۔ مہتمم مالی شعبہ کا بحیثیت اپنے عہدہ کے اس کا رکن ہو، اس طرح پر کام کرنے میں بہت سے فوائد ومنافع ہیں اور اس طریقِ کار میں جو حسن وخوبی ہے، وہ ظاہر ہے، محتاجِ بیان نہیں۔
اربابِ ثروت کے لیے لمحۂ فکریہ
برادرانِ ملت! جن حضرات کو اللہ تعالیٰ نے مالی طاقت دی ہے، اب ان کا فرض ہے کہ اپنے اموال سے دین کی حفاظت کا سامان کریں اور آخرت کی جواب دہی سے سبکدوشی کا خیال کریں۔ اس کاروانِ دین کی حفاظت کوئی وقت دے کر کرے گا، کوئی دماغ خرچ کرے گا اور کوئی مال دے کر، جس کو جو نعمت حاصل ہے اس کے مطابق اس کی ذمہ داری ہوگی۔ یاد رہے کہ مال کا طبعی تقاضاہے کہ وہ خرچ ہوگا، اگر دین کے لیے نہیں کریںگے تو مجبوراً وہاں خرچ ہوگا جہاں تمہیں فائدہ نہیں‘ سراسر خسارہ ہوگا۔ آخر یہ کمیونزم کا فتنہ کیا ہے؟ اربابِ ثروت کے غلط طرزِ زندگی کا وبال ہے۔ اگر اربابِ ثروت اپنے اموال اِن دینی شعبوں کے لیے خرچ نہیں کریںگے اور فقراء امت کی ضروریات سے غفلت کریںگے تو انہیں ابھی سے اس کے نتائج برداشت کرنے کے لیے تیار ہو جانا چاہیے۔ دنیا میں اس قسم کی ایک دو مثال نہیں، سینکڑوں مثالیں ہیں کہ ہرملت کے افراد تقسیمِ کار کے اصول پر چل کر ہی اپنی اپنی ملت کو بامِ عروج پر پہنچاتے ہیں، کیا یورپ اور امریکہ، روس اور چین، جاپان اور فرانس اور دیگر اقوام کی ترقیوں اور کامیابیوں کا راز اسی اصولِ تقسیمِ کار میں مضمر نہیں ہے؟ دنیا کی تاریخ میں اس کی مثالیں نہیں ہیں؟ کیا اس ایک تہائی صدی میں ایشیا سے لے کر یورپ تک، بخار اسے لے کر فرانس انگلینڈ تک اس کے نظائر نہیں ؟ 
اگر برادرانِ ملت کو آخرت کا احساس ہے تو اس دنیا میں صحیح خدمت کرنے کے لیے مؤثر قدم اُٹھانا پڑے گا، ورنہ نہ دین رہے گا نہ دنیا، ’’خَسِرَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃَ ذٰالِکَ ہُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ‘‘، اللہ تعالیٰ صحیح فہم عطا فرمائیں۔ حضرات! سنانے کو بہت کچھ جی چاہتا ہے، لیکن فرصت کے نہ ہونے سے بہت تھوڑا وقت آپ کا لیا اور چند حقائق آپ کے سامنے رکھے ہیں۔ آخر میں یہ بات صاف صاف عرض کردینا چاہتا ہوں کہ دینِ اسلام صرف مولویوں کا اور عالموںکا دین نہیں، ساری امت کا دین ہے، اس کی حفاظت کی ذمہ داری اسی نوعیت کی ہے اور اربابِ ثروت کان کھول کر سن لیں، اگر ان کی غفلت ایسی ہی رہی، اپنے فرائض سے تغافل کرتے رہے اور عیش پرستی کی زندگی کو اپنا معراجِ کمال سمجھا تو دین تو رخصت ہے، دنیا کی بھی خیر نہیں۔ اس وقت ساری دنیا کی نجات دینِ اسلام کی بقاء میں ہے ، آج یورپ، امریکہ اور روس کے ممالک بھی جن میں جمہوریت اور کمیونزم کے سکے جاری ہیں، استبداد اور نانصافی سے نجات پانے کے لیے راستہ کی تلاش میں سرگرم ہیں اور ان کے مفکرین اور عقلاء مذہب اور ربوبیتِ عامہ کا نام لے کر بچنے کی تدبیر کررہے ہیں۔ غرض یہ کہ دنیا کی حفاظت اور تدبیر بھی ان کو دین ہی میں نظر آرہی ہے، لیکن یہ ظاہر ہے کہ نام کی عیسائیت جو دہریت والحاد اورعیش پرستی وخدافراموشی کی لعنت سے ملوّث ہوچکی ہے، وہ ان کو نہیں بچا سکے گی اور نہ کمیونزم کا چمکتا ہوا نظامِ اقتصاد اُن کے لیے نسخۂ شفا بن سکے گا۔ آج کمیونزم کی لعنت اور کیپٹلزم کی گندگی سے اگر نجات ہوسکتی ہے تو صرف خاتم الانبیاء محمد رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی شریعتِ مقدسہ سے۔ آج امریکہ ویورپ کی جمہوریت کی اگر اصلاح ہوسکتی ہے تو صرف قرآن حکیم کی تعلیماتِ ربانیہ سے ہوسکتی ہے، لیکن افسوس اس کا ہے کہ مسلمان خود اپنے دین کا جامع ترین نظامِ زندگی چھوڑ کر یورپ اور اعدائے اسلام کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں، اس لیے دنیا اس غلط فہمی میں مبتلا ہوچکی ہے کہ مسلمان ہمارے خوشہ چیں ہیں۔ آج اگر مسلمان قوم کی زندگی کا نقشہ وہ ہوتا جس کو قرآن حکیم نے پیش کیا ہے اور جس کی نشاندہی نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے اپنے قول وعمل سے کی تو پھر یورپ کی قوموں کو کسی تبلیغ کی ضرورت نہ تھی، صرف مسلمانوں کا نقشِ زندگی اور دستورِ عمل سراپا تبلیغ بنتا، لیکن افسوس اور صد افسوس کہ صورت حال بالکل ۔۔۔۔۔ برعکس ہے:
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
آج مسلمانوں سے اسلام کی روح نکل چکی ہے، ان کی صورت، ان کی سیرت، ان کی زندگی، ان کی معاشرت، ان کے معاملات اور ان کے اوضاع و اطوار خدا فراموش قوم کے آثار ہیں۔ حضرت حسن بصریؒ متوفی ۱۱۰ھ سے جب پوچھا گیا تھا کہ صحابہؓ کیسے تھے؟ تو فرمایا تھا کہ اگر وہ زندہ ہوں اورتمہیں دیکھیں تو ان کا فیصلہ تمہارے حق میں یہ ہوگا کہ تم زندیق ہو اور تمہارا فیصلہ ان کے متعلق یہ ہوگا کہ وہ مجنوں ہیں۔ اگر ساڑھے بارہ سوبرس پہلے کا فیصلہ یہ ہوسکتا ہے تو آج کا فیصلہ کیا ہوگا؟! اندازہ لگالیجئے۔ ظاہر ہے کہ ایک خدا فراموش قوم اور دنیا کے اندر سراسر مستغرق قوم اس قوم (صحابہ کرامؓ) کے متعلق اس فیصلے سے بڑھ کر دوسرا فیصلہ کیا کرسکتی ہے؟ جس کو نہ اپنی راحت وآسائش کی فکر تھی، نہ عزت وسطوت کا خیال تھا، نہ اس کے دماغ میں اہل وعیال کے لیے دولت فراہم کرنے کا خبط تھا، نہ گفتار کا غازی بنانے والا اور انسانیت کو تباہ کرنے والا فلسفۂ ثقافت اور علمِ سائنس اس کا نظریۂ حیات تھا۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری یہی دعا ہے کہ وہ ہمیں اور آپ کو صحیح علم وعمل کی توفیق عطا فرمائے او رہمارے اور آپ کے ظاہر وباطن کی اصلاح فرمائے۔
ربنا لاتجعلنا فتنۃ للذین کفروا واغفرلنا ربنا إنک أنت العزیز الحکیم
                                                        محمد یوسف بنوری عفا اللہ عنہ 
                                                            یکم فروری ۱۹۶۰ء 

 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین