بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

اسلامی اذکار ودعائیں ! احکام وفضائل

اسلامی اذکار ودعائیں !

    احکام وفضائل

 

روحانی زندگی کی بقا واصلاح:
    انسان کی روحانی زندگی کی بقاء واصلاح کے لئے دو چیزوں کی اصلاح نہایت ضروری ہے:۱:… صحتِ عقیدہ ۔۲:… صحتِ عمل ۔
    انسان ان دونوں چیزوں کی اصلاح میں درماندہ وعاجز ہے ،کیونکہ بُرے کاموں سے بچنا اور نیک کام کرنا اللہ تعالیٰ کی نصرت وہدایت کے بغیر نہیں ہوسکتا، اس لئے شریعت نے تعوُّذ اور بسم اللہ کی تعلیم دی ہے اور ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھنے کے لئے ادعیہ واذکار کا ایک مستقل نظام قائم کیا،جو روحانی ترقی کانہایت مؤثر اوراہم ذریعہ ہے، جس کاذکر آئندہ صفحات میں کیاگیاہے۔ اسلامی عبادات کا مرکزو محور’’ذکر اللہ‘‘ ہے، اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے اہم رکن نماز ہے، قرآن نے اس کی غرض و غایت ان الفاظ میںبیان کی ہے :
    ’’وَأَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِذِکْرِیْ‘‘۔  (طٰہٰ:۱۴) یعنی ’’میری یاد کیلئے نماز پڑھا کرو‘‘۔
    اقامت ِصلوٰۃ کا مقصد یادِ الٰہی کو دل میں تازہ رکھنا ہے۔ اسی طرح اسلام کا اہم رکن حج ہے، اُس کا آغاز ہی تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید سے ہوتا ہے۔ طواف و عمرہ اذکار و ادعیہ پرمشتمل ہے۔ حج کا اہم رکن قیامِ عرفات ہے، اس میں سارازور اذکاروادعیہ پردیا گیا ہے، اس کے لئے میدانِ ِعر فات میں نماز میں تقدم و تاخر کیا گیا ہے ،جس سے اسلام میں اس کی اہمیت ظاہر و باہر ہے۔
    قرآن کریم نے انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کے الفاظ کونقل کیا، اُن کے دعامانگنے کے اسلوب اور طورطریقہ کوبیان کیا، دعاکے آداب کی طرف رہنمائی کی، نیز اس حقیقت کاانکشاف کیاکہ دعا بنی نوع انسان کاایک فطری عمل ہے جوآڑے وقت اور مشکلات میں پوری طرح جلوہ گرہوتا ہے۔ شریعت چاہتی ہے کہ یہ فطری عمل عیش وطیش، رنج وراحت، سودوزیاں، خوشی وناخوشی، نرمی وگرمی، تنگدستی وخوشحالی، عزّت وذلّت ہرحال میں جاری رہنا چاہئے۔
    دعااپنے خالق ومالک سے براہِ راست تعلق وقرب کانہایت کامیاب اور سب سے زیادہ زوداثر اور نہایت مجرب عمل ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ اس نے ہمیں دعا مانگنے کا حکم دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ ستودہ صفات جومسلمانوں کے لئے نمونۂ عمل ہے اور اس حقیقت کی آئینہ دار ہے کہ ’’دعا‘‘ آپ ا کی زندگی کانہایت روشن باب ہے ، آپ ا کی ادعیۂ ماثورہ اصحابِ فکر ونظر واربابِ صدق وصفا کانظری وعملی دونوں اعتبار سے نہایت پسندیدہ موضوع رہی ہیں۔
    مفسّرین، محدثین، فقہاء ومتکلمین ، صوفیہ وادباء، ائمہ لغت، مؤرخین اور سیرت نگاروں نے اس موضوع سے اعتناء کیا۔ چنانچہ کسی نے رسالت مآب ا کی دعاؤں کواپنی سندوں سے جمع کیا، کسی نے ان کے مطالب ومعانی کی وضاحت کی اور موقع ومحل کو بیان کیا، کسی نے توبہ واستغفار پرکلامی نقطۂ نظر سے بحث کی، کسی نے مشکل الفاظ کی لغوی تحقیق کی، کسی نے ان کی نحوی ترکیب سے اعتناء کیا ، کسی نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں کیاکیا دعائیں مانگیں، حج میں کس موقعہ پر کن الفاظ میں اللہ کے حضور التجاکی، نمازِ جنازہ وتشہد وتہجد میں کیاکیا دعائیں رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں۔جنگ وغزوات میں کس موقعہ پر کن الفاظ میں اپنے رب کویادکیا، خوشی کے موقعہ پراپنے رب کو کن الفاظ میں پکارا اور مصیبت میں کن الفاظ سے التجاء کی۔ صوفیہ نے اپنے تجربات والہامات سے ان دعاؤں کو احزاب واوراد میں تقسیم کیا، جواحزاب واوراد کے نام سے معروف ومشہور ہیں۔ بعض نے ان کے خواص واثرات کوموضوعِ بحث بنایا، اور اس موضوع پر کتابیں تالیف کیں۔ کسی نے دعا کی حقیقت کوبتایا اور اس کی قبولیت کی شرائط پر روشنی ڈالی۔ اس طرح دعا کے گوناگوں پہلوزیرِبحث آتے رہے۔
     اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام میں ادعیہ واذکار کے نظام کونہایت بلند مقام حاصل ہے۔ کتبِ حدیث میںر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جن الفاظ سے دعائیں اوراذکار حدیث کی کتابوں میں منقول ہیں، وہ سب الہامی اور توقیفی ہیں۔ ان الفاظ سے مانگنا اجروثواب کاموجب اور بارگا ہ الٰہی میں سب سے زیادہ محبوب ومقبول ہے۔علامہ جلال الدین سیوطیؒ المتوفی ۹۱۱ ؁ھ نے ’’تدریب الراوی‘‘ میں تصریح کی ہے کہ دعائیں توقیفی(الہامی) ہیں:
    ’’ألفاظ الأذکار توقیفیۃ‘‘(ص:۴۰۶)۔ ترجمہ:’’اذکار اور دعاؤں کے الفاظ الہامی ہیں (یعنی اُنہی الفاظ میں اُنہیں پڑھنا چاہئے )‘‘۔
ذکر و دعا پر اطمینانِ قلب کا الٰہی وعدہ :
    اس دور میں جہاں ہر طرف سامانِ عیش وطرب کی فراوانی ہے ،خوش دلی و خوش حالی کا سامان بکثرت موجود اور بآسانی دستیاب ہے ، زند گی کے ہر میدان میں ترقی کی راہیں کشادہ ہیں، پھر بھی دنیا میں ہر جگہ معاشرہ گھٹن کا شکار ہے ، اور اطمینانِ قلب کی دولت کا کہیں سراغ نہیں، اس کے حصول کے لئے اجتماعی اور انفرادی جو بھی کوشش ممکن ہے برابرجاری ہے ،لیکن تمام کوششیں رائیگاں جاتی ہیں۔
    اس کی بنیادی وجہ اسلام کے نظامِ اذکار و ادعیہ سے بے رغبتی ،غفلت و دوری ہے ۔ دنیا میں غفلت و دوری کا یہ پردہ ہی وہ پردہ ہے جو اللہ تعالی کی اطاعت و فرمانبر داری اور یادِ الٰہی سے دور رکھتا ہے، دینِ حق قبول کرنے ،دعوتِ حق کو سننے سے مانع ہے ،اور آخرت میں انسان کو جہنم کا ایندھن بناتا ہے ۔قرآن کہتاہے :
’’اَلَّذِیْنَ کَانَتْ أَعْیُنُھُمْ فِيْ غِطَآئٍ عَنْ ذِکْرِيْ وَکَانُوْا لَایَسْتَطِیْعُوْنَ سَمْعًا‘‘۔(الکہف:۱۰۱)
ترجمہـ:۔’’: جن کی آنکھوں پر(دُنیا میں) میر ے ذکر کی طرف سے پردہ پڑ ا ہوا تھا، اورجو سُننے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے‘‘۔ 
    معلوم ہو ا کہ اللہ کی یاد ہی وہ بنیاد ہے جس سے بندے کا رشتہ اللہ سے جڑتا اور قائم رہتا ہے ، قرآن کہتا ہے :
’’اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوْبُھُمْ بِذِکْرِ اللّٰہِ أَلاَ بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ‘‘    (سورۃالرعد: ۲۸)
ترجمہ : ۔’’یہ وہ لو گ ہیں جو ایمان لائے ہیں ، اورجِن کے دِل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں ، یاد رکھو کہ صرف اللہ کا ذکرہی وہ چیز ہے جس سے دلو ں کو اطمینان نصیب ہوتا ہے‘‘۔
    ذکر کے بھی درجات ہیں، جس درجہ کا ذکر ہوتا ہے، اُسی درجہ کا اطمینان ہوتا ہے، ذ کر کی خاصیت ہی اطمینانِ قلبی ہے۔جوذکر اللہ سے جُڑتا اور استوار ہوتا ہے، اُس کا ہر لمحہ عبادت میں گزرتا اور وہ ہر حال میں خوش رہتا ہے۔ یہ اسلام کا ایسا نظریۂ حیات ہے ،جس کی مثال عالم کے مذاہب میں ملنی مشکل ہے۔ اس نظام کی یہی سب سے بڑی خوبی ہے کہ بندہ کی زبان ہمہ وقت ذکر اللہ سے تر رہتی ، دل اللہ کی یاد سے آباد اور قناعت و غنا کی دولت سے ہمیشہ سر شار رہتا ہے۔ سخت سے سخت گھڑی اور کٹھن سے کٹھن منزل پر جزع و فزع ، گھبراہٹ اور بے چینی نہیں ہوتی، اس کا سکون و اطمینان برقرار رہتا ہے، اس لئے کہ اس کا دل اور زبان یادِ الٰہی سے معمور ہے ۔ اذکار و ادعیہ کا اسلامی نظام اس نوع کی زندگی بناتا اور سنوارتا ہے کہ ہر لمحہ اور ہر آن عبادت میں گزرتا اور وہ اطمینانِ قلب کی لذت سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔
عالمِ اسباب میں دُعا:
    یہاں یہ نکتہ بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ یہ دنیا عالمِ اسباب ہے، یہاں ہرکام کسی وجہ سے ہوتا ہے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہرکام سلسلۂ اسباب کی ایک کڑی ہے ،ہر ایک واقعہ کا کوئی نہ کوئی سبب ہے،اِس کا انکار گویا قانونِ فطرت کاانکارہے۔البتہ اسباب کی پابندی سے کامیابی کا یقین نہیں ہوتا۔ اسباب بذاتہا اگرمؤثر ہوتے تومطلوبہ نتیجہ ضرور حاصل ہوتا، ایسے ہی موقعہ پر انسان اپنے آپ کو عاجز پاکر مسبب الاسباب کی طرف لوٹتا اور اُسے پکارتاہے، اور وہ اس کی مراد کوپورا کرتا ہے۔ یہ اس امر کی دلیل ہے کہ کائنات کا سارا نظام اللہ کے علم وارادہ اور قدرت وحکمت کے ماتحت چل رہا ہے۔
    دُعا ایک تدبیر وسبب ہے، اور سنت اللہ اس طرح جاری ہے کہ اسباب کے بغیر مطلوب حاصل نہیں ہوتا، گو اس کی قدرتِ کاملہ سے کچھ بعید نہیں کہ کبھی وہ سبب کے بغیر بھی مراد بَرلاتا ہے، مگر ایسا بھی اس کی حکمت ومصلحت سے ہوتاہے ۔ سلسلۂ سبب ومسبب کانام حکمت ہے۔
    اُمّتِ مسلمہ کامذہب یہ ہے کہ ’’دُعا‘‘’’ توکل‘‘ اور ’’عمل صالح‘‘ دنیاوآخرت کے مقاصد کے حاصل کرنے میں ایک سبب کی حیثیت رکھتے ہیں اور معاصی سے بچنے کا ذریعہ ہیں۔ جو حکم کسی سبب سے وابستہ ہوتاہے، اس کے پورا ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس کی شرائط کوپورا کیا جائے، اور موانع اور رکاوٹوں کو دورکیاجائے، پھر مسبَب پایاجائے گا، ورنہ نہیں۔
نظامِ عبادت میں اذکار اور دعائیں:
    اسلام میں ادعیہ واذکار کا نظامِ عبادت دوسری اسلامی عبادات کی طرح مخصوص شرائط ، اوقات ومقامات کے ساتھ وابستہ اور خاص نہیں ہے ، جیسے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ او رجہاد وغیرہ میں وقت، مقام، ہیئت اور شرائط ضروری قرار دی گئی ہیں، اس طرح کی شرائط اذکار اوردعاؤں کے نظا م میں لازمی اورضروری نہیں۔ ابن ابی حاتم،ؒ ابن المنذرؒ اور ابن جریرؒ نے بواسطۂ علی بن ابی طلحہ الہاشمیؒ المتوفی ۱۴۵ھ؁ ترجمان القرآن حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیاہے ، وہ فرماتے ہیں:
ترجمہ :’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر کوئی عبادت فرض نہیں کی، مگر اس کے لئے حد مقررومتعیّن کی ہے (یہ مقررہ حد وقت، مقام، ہیئت وشرائط سے عبارت ہے) ،پھر حالتِ عُذر میں انہیں مہلت دی ہے،سوائے ذکر ودعا کے کہ اللہ تعالیٰ نے ذکرودعا کے لئے کوئی حدمقرر نہیں کی جس پر وہ ختم ہوتی ہو ،اور اُسے چھوڑدینے میں کسی کو معذور قرار نہیں دیا، مگر اس کو جواپنی عقل وفہم ہی کھو بیٹھے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے: ’’اُذْکُرُوْا اﷲَ قِیَاماً وَّقُعُوْداً وَّعَلٰی جُنُوْبِکُمْ‘‘ کھڑے ، بیٹھے اور لیٹے اللہ کو یادکرو۔رات میں ، دن میں، خشکی میں، سمندر میں، سفرمیں، وطن میں، تنگدستی میں، تونگری میں ، تندرستی میں، بیماری میں ، چُھپے اورکُھلے، ہرحال میں اللہ کاذکر کرو، اس سے دُعامانگو‘‘۔
    اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دوقسم کی عبادات ہیں، ایک وہ عبادات ہیں جو خاص وقت، خاص مقام، خاص ہیئت اور خاص شرائط کے ساتھ اداکی جاتی ہیں۔ دوسری وہ عبادات ہیں، جن میں اس نوع کی کوئی شرط وقیدنہیں ، یہ اذکاراوردعائیں وہ ہیں جن کا نفع عام وتام ہے۔
دُعا کے معنٰی:
    دُعاکے معنیٰ لُغت میں بُلانا، پُکارنا، یادکرنا ہیں، لیکن عرف اور شریعت میں اس سے خاص معنی مُراد ہیں، علّامہ سیّد مرتضیٰ بلگرامی ثم زبیدیؒ ’’تاج العروس‘‘ میں رقمطراز ہیں :
’’الدعاء : الرغبۃ إلی اﷲ فیما عندہ من الخیر، والابتہال إلیہ بالسؤال، ومنہ قولہ تعالی :’’اُدْعُوْا رَبَّکَمْ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَۃً۔إِنَّہٗ لاَ یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ۔‘‘           (الأعراف:۷)
ترجمہ:۔’’: دُعا کے معنی: اللہ تعالیٰ کے یہاں جو کچھ خیراور بھلائی ہے اس کی خواہش ورغبت کرنااور اس کے سامنے عاجزی ونیازمندی سے سوال کرنا ہے، چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:’’اپنے پروردگار سے دُعاکرو عاجزی کے ساتھ چُپکے چُپکے، بیشک وہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔
    دُعا میں مُراد کا حاصل ہونا بھی مطلوب ومقصود ہوتا ہے، اس لئے اس کے جواب میں اجابت کالفظ آتا ہے کہ جس مقصد کے لئے درخواست کی گئی تھی وہ قبول ہوگئی ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ‘‘۔                                         (المؤمن:۶۰)
ترجمہ :’’ اور تمہارے پروردگار نے کہا ہے کہ مجھے پکارو میں تمہاری درخواست قبول کروںگا‘‘۔
حقیقتِ دُعا:
    امام فخر الدین رازیؒ تفسیرِکبیر،ج::۲،ص:۹۲۱ میں لکھتے ہیں:
’’حقیقۃ الدعاء استدعاء العبد ربہ جلّ جلالہ العنایۃ و استمدادہ إیاہ المعونۃ‘‘۔
ترجمہ :’’ دُعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب سے مدد اور رحمت و عنایت کا طلبگار رہے‘‘۔
    اس سے معلوم ہوا کہ دعا کے مفہوم میں بہت وسعت ہے، اپنے دینی ودنیوی مطالب، زبان سے، دل سے ، یاحال سے پیش کرنا، تسبیح وتہلیل کرنا، یادِ الٰہی میں لگے رہنا بھی دعا کے مفہوم میں داخل ہے۔اصل عبادت یہ ہے کہ بندہ کی ہر اداسے یہ ظاہر ہوتا رہے کہ یہ بندہ ہے اور وہ رب ہے، یہ مخلوق ہے اور وہ خالق ہے، یہ محتاج ہے وہ غنی ہے، یہ عاجزہے وہ قادرہے، جو اس امر سے گریز کرتا ہے ،وہ دُعا کو مؤثر نہیں سمجھتا اور نہ وہ اپنے آپ کو’’ عبد‘‘ اور ’’رب الارباب‘‘ کو ’’رب‘‘ مانتا ہے، اس کی سزا جہنّم ہے ۔ قرآن کہتا ہے:
’’وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِيٓ أَسْتَجِبْ لَکُمْ۔ إِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِيْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دَاخِرِیْنَ‘‘۔                                                        (المؤمن:۵۹)
ترجمہ :۔’’ اور تمہارے پروردگار نے کہاہے کہ: مجھے پکارو، میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا، بے شک جو لوگ تکبر کی بناء پر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، وہ ذلیل ہوکرجہنّم میں داخل ہوں گے‘‘۔
    حدیث میں آتاہے:’’الدعاء ہو العبادۃ‘‘۔(ق،ع)یعنی ’’دعا اصلِ عبادت ہے‘‘۔اور دوسری حدیث میں آیاہے:’’الدعاء مخ العبادۃ‘‘۔دُعا مغزِ عبادت ہے۔
اہل سنت (اشاعرہ وماتریدیہ)کا دعا کے متعلق عقیدہ:
    دُعا کی اہمیت وافادیت کو اور اس حقیقت کو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مشیّت وارادہ میں آزاد ہے، تسلیم کرتے اور اس امر کے قائل ہیں کہ دُعا کو قبول کرنا اور اس کا رد کرنا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ ان کے یہاں نمازِجنازہ کی حیثیت ایک دُعا کی ہے ،جس میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی التجاء کی جاتی ہے اورمغفرت اُس کی رضا پر موقوف ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ وہ دُعا کی اہمیت وافادیت کو مانتے ہیں۔انہی وجوہ سے وہ کسی جائزسبب کی وجہ سے بددُعا کی ضرررسانی سے انکارنہیں کرتے، وہ اس امر کے قائل ہیں کہ مظلوم کی بددُعا قبول ہوتی ہے، خواہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو۔
انفرادی و اجتماعی دعا کی اقسام:
    دعائیںبھی دو قسم کی ہیں :۱:…انفرادی ۔۲:… اجتماعی۔
انفرادی:
     وہ دعائیں ہیںجن میںواحد متکلم کے صیغے اور ضمیریں استعمال کی گئی ہیں۔ ان کا تعلق فرد واحد کی اپنی اصلاح و فلاح ، کامیابی و کامرانی، حاجت روائی و کار برآ ری ومغفرت و معافی سے ہے۔
اجتماعی:
     وہ دعائیں ہیں جن میں جمع متکلم کے صیغے اور ضمیریں آتی ہیں، ان دعائوں میں اجتماعی شان مضمر ہے، پوری امت اس میں شریک ہوتی ہے ،اسلامی معاشرہ کے تمام افراد اس میں داخل ہیں۔
حیثیت کے اعتبار سے دعاکی چار قسمیں :
    حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ نے دعا کی چار قسمیں بیان کی ہیں،موصوف فرماتے ہیں:
’’ دعا کی چار قسمیں ہیں :اول:دعائے فرض، مثلاًنبی کو حکم ہو ا کہ اپنی قوم کے لئے ہلاکت کی دعا کرے، بس اسے یہ دعا کرنا فرض ہے۔دوم: دعائے واجب، جیسے دعائے قنوت۔سوم: دعائے سنت ،جیسے بعد تشہد اور اد عیہ ماثورہ۔چہارم: دعائے عبادت، جیسا کہ عارفین کرتے ہیں اور اس سے محض عبادت مقصود ہے، کیونکہ دعا میں تذلل (عجز وانکساری کا اظہار ) ہے اور تذلل حق تعالیٰ کو محبوب ہے۔
نظامِ اذکاروادعیہ کی غایت:
    نظامِ اذکاروادعیہ کی غایت یہ ہے کہ ’’اللہ کاذکر‘‘ اللہ کی یاد اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے دل ودماغ میں ایسی رچ بس جائے کہ اس کی کوئی حرکت اللہ کی یادسے خالی نہ ہو۔وہ کام کرے گا ’’بسم اﷲ‘‘ پڑھ کر کرے گا، ہرنعمت پر اس کا شُکر اداکرے گا، ہر کوتاہی اورقصور پر اس کے آگے معافی مانگے گا، حاجت کے وقت اس کے حضور میں ہاتھ پسارے گا، ہرمشکل میں اس کو پکارے گا، ہرمصیبت میں’’ إنّا ﷲ ‘‘کہے گا، کبریائی وعظمت کے موقعہ پر بے ساختہ اس کے منہ سے ’’اﷲ أکبر‘‘ نکلے گا، ہرمعاملہ میں اس کے آگے ہاتھ پھیلائے گا، کوئی بُری بات کان میں پڑے گی وہ ’’معاذاﷲ‘‘ اور’’ نعوذباﷲ ‘‘کہے گا،ہر نامناسب بات پر ’’لاحول ولاقوۃ إلّاباﷲ‘‘کے الفاظ اس کی زبان پر جاری ہوجائیںگے، اٹھتے بیٹھتے ہرکام او رہربات پر’’الحمدﷲ‘‘، ’’سبحان اﷲ‘‘، ’’ماشاء اﷲ‘‘، ’’إن شآء اﷲ‘‘جیسے بابرکات کلمات اس کی زبان سے ادا ہوتے رہیں گے ۔یہ اللہ سے اس کی محبت وتعلق کا نہایت بیّن ثبوت ہوگا۔ ’’ذکراﷲ‘‘ کرنے والوں کی شان یہ ہے کہ دنیا کے معالات اور تجارت میں لگے ہوئے ہیں ،پھربھی دل اُن کے کہیں اور ہی اَٹکے ہوتے ہیں، نہ ان سے فرائض کی ادائیگی میں غفلت ہوتی ہے اور نہ وہ ادائے حقوق میں سستی کرتے ہیں۔ ان کی زبان ’’بارک اﷲ!‘‘، ’’یرحمک اﷲ‘‘، ’’یغفراﷲ‘‘، ’’رحمۃ اﷲ‘‘ ،’’واﷲ، باﷲ، إلااﷲ‘‘ اور اردو میں ’’اللہ کی رحمت ہو‘‘، ’’اللہ ہدایت دے‘‘، ’’اللہ برکت دے‘‘، ’’اللہ صحت دے‘‘،’’اللہ رکھے‘‘، ’’اللہ عافیت دے‘‘، ’’اللہ خیریت سے پہنچائے‘‘، ’’اللہ توفیق دے‘‘، ’’اللہ خیرکرے‘‘، ’’اللہ بخشے‘‘، ’’اللہ رحم کرے‘‘، ’’اللہ معاف کرے‘‘، ’’اللہ کی پناہ‘‘وغیرہ جملوں سے تررہتی ہے۔
صوفیہ کے اوراد واذکار:
    صوفیہ کاطریقۂ سلوک، اورادواذکار اور اشغال واعمال کا دستورالعمل جو اصلاحِ اعمال واحوال کاکامیاب تجرباتی طریقۂ کارہے، اس نظام کاایک حصّہ ہے، چنانچہ شاہ عبد العزیز دہلوی ؒ آیۂ شریفہ:’’وَاذْکُرِاسْمَ رَبِّکَ‘‘۔(المُزمّل:۸)۔’’اور آپ اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو‘‘۔کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
ترجمہ :۔ ’’یعنی آپ اپنے پروردگار کانام ہمیشہ یاد کرتے رہیں، ہر وقت اور ہرکام میں اورہر عبادت کے ساتھ خواہ اس کے اثناء میں ہو، اورخواہ اس کے اول وآخر میں، خواہ زبان سے ہو، خواہ لطیفۂ قلب سے اورخواہ روح سے اور خواہ سِری ہو، خواہ خفی اور خواہ اخفٰی، اور خواہ نفس سے ہو، خواہ دن میں ہو، خواہ رات میں، ذکرِلسانی سراً ہو یاجہراً، اور چاہے پوشیدہ ہو، اور پروردگار کانام خواہ اسمِ ذات ہویا اسمِ اشارہ، ’’ہو‘‘ سے ہو یا اسماء حُسنٰی میں سے کسی ایک نام سے ہو، جو نام سالک کی ذات اور اس کے حال اور وقت کے زیادہ مناسب ہو ، پھر اسمِ ذات یاکلمہ طیّبہ کے ضمن میں نفی واثبات کے ساتھ، خواہ ’’سبحان اﷲ‘‘، ’’الحمد ﷲ‘‘، ’’اﷲ أکبر‘‘اور ’’لاحول ولاقوۃإلاباﷲ‘‘ کے ساتھ اور دوسرے مسنون اذکارکیساتھ ہو، اورخواہ کیفیتِ ذکر یک ضربی ہو خواہ دوضربی، یا اس سے بھی زیادہ، خواہ حبسِ نفس کے ساتھ ہو یا حبسِ دم کے بغیر ، برزخ کے بغیر ہو یا برزخ کے ساتھ، خواہ سہ رکنی ہو یا  ہفت رکنی، خواہ شرائطِ عشرہ کے ساتھ ہو ( یعنی شد، مد، تحت، فوق، محاربہ، مراقبہ، محاسبہ، مواعظ، تعظیم اورحرمت ) یا ان شرائط وغیرہ کے بغیر دوسری خصوصیات کے ساتھ ہو جو ماہرینِ اہلِ طریقت کی وضع واستنباط کی ہوئی ہیں۔ قرآن کہتا ہے : ’’اگر تمہیں خود علم نہیں ہے تو نصیحت کا علم رکھنے والوںسے پوچھ لو ۔‘‘ (الأنبیاء:۷)
دس کلماتِ اذکار کاتذکرہ جن کاہرشریعت میں رواج ومعمول رہا:
    شاہ عبدالعزیز مُحدّث دہلویؒ ایسے دس کلماتِ اذکار کے متعلق تفسیر’’فتح العزیز‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’درایں جا باید دانست کہ اذکارِ عشرہ کہ تسبیح وتحمید وتکبیر وتہلیل وتوحید وحوقل وحسبلہ وبسملہ واستعانت وتبارک است، ودر ہر شریعت صیغ مختلفہ آنہا رائج ومعمول است‘‘۔ 
ترجمہ : ۔’’یہاں اس حقیقت کو سمجھ لیناچاہئے کہ اذکارِ عشرہ (۱)’’ سبحان اﷲ‘‘ کہنا (۲)’’الحمد ﷲ ‘‘کہنا (۳)’’ اﷲ أکبر‘‘ کہنا (۴) کلمہ ’’لاإلہ إلااﷲ‘‘ پڑھنا (۵) ’’وحدہ لاشریک لہ‘‘ کہنا (۶) ’’لاحول ولاقوۃ إلا باﷲ‘‘ کہنا (۷) ’’حسبنااﷲ ‘‘کہنا (۸) ’’بسم اﷲ الرحمن الرحیم‘‘ کہنا (۹) اللہ تعالیٰ سے استعانت مانگنا(۱۰) برکت مانگنا، مذکورہ بالادس کلمات ہرشریعت میں مختلف الفاظ اور صیغوں کے ساتھ رائج اورقابلِ عمل ہیں‘‘۔
دُعامانگنے کا سادہ اور آسان طریقہ:
    دُعامانگنے کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کی جائے، پھر رب العالمین کے حضور میں عرض مدّعا کیاجائے، اس انداز سے جو دُعا کی جائے گی وہ قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ (ابوبکر الجصاص، احکام القرآن: ۱/۴۲)
    دعا نہایت عاجزی و انکساری سے کرنی اور خاموشی سے مانگنی چاہئے، اس طرح دکھاوے اور شہرت کا خطرہ نہیں رہتا۔ خاموشی سے دعا مانگنا اللہ تعالی کو پسند ہے۔ دعامیں خوف و طمع دونوں ہونی چاہئیں،قبولیت کی امید اور گناہوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے رد ہونے کا کھٹکا رہنا چاہئے ۔ ناامیدی بھی کفر ہے، اور بے جا اعتماد اور گھمنڈ بھی اچھا نہیں۔
دعااور تعوذ کی مثال :
    ادعیہ و تعوذاتِ ماثورہ ہتھیار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ہتھیار کی قدر و قیمت چلانے والے سے ہوتی ہے، اس کی دھار سے نہیں، اس میں کامیابی کے لئے حسب ِذیل تین شرطوں کا پایا جانا ضروری ہے:
    ۱… ہتھیار درست ہو۔۲…چلانے والے کے ہاتھوں میں جان ہو،سوجھ بوجھ بھی اچھی ہو۔۳…کسی قسم کی رکاوٹ بھی موجود نہ ہو،پھر نتیجہ صحیح نکلتا ہے۔ مذکورہ بالا تین شرطوں میں سے ایک شرط بھی نہ پائی گئی تو نتیجہ صحیح نہیں نکلے گا ۔چنانچہ ضروری ہے کہ : ۱…دعا کے الفاظ صحیح یاد ہوں۔ ۲… دعا مانگنے والے کے دل و زبان میں موافقت ہو ،جو زبان سے ادا ہو دل بھی اس کا ہمنوا ہو۔ ۳…کوئی اور چیز قبولیت ِدعا سے مانع موجود نہ ہو ،پھر نتیجہ صحیح برآ مد ہوتا ہے، ور نہ نہیں۔
تین طریقوں سے دعاؤں کاآغاز:
    دعاؤں کاآغاز تین طریقوں سے کیاجاتاہے اور یہ تینوں طریقے مسنون دعائوں میں پائے جاتے ہیں، ان میں کون سا طریقہ سب سے بہتر ہے؟ اس کی طرف علّامہ ابن القیم الجوزیؒ نے اشارہ کیاہے، چنانچہ وہ ’’التفسیرالقیم‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’دعائیں تین طرح سے مانگی جاتی ہیں :
    اول: یہ کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے اسماء وصفات کاواسطہ دے کر دُعا مانگی جائے،جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہے:
وَلِلّٰہِ الْأَسْمَآئُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا۔                                           ( الأعراف:۱۸۰)
ترجمہ : ۔’’اور اسمائِ حسنیٰ (اچھے نام) اللہ ہی کے ہیں، اُسکو اُنہی ناموں سے پُکارو‘‘۔ 
    یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اسمائِ حسنیٰ میں سے کسی اسم کا وردتکرار کی وجہ سے ذکر کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے، یا پھر دعا کی صورت اختیار کر جاتا ہے ،اس لئے کہ ذاتِ باری تعالیٰ کا ہر نام دعاگو کی کسی ضرورت سے تعلق رکھتا ہے۔
     دوسرے: یہ کہ تم اپنی حاجت، درماندگی ،ذلت و عاجزی کا اظہار کرو اور سائل بن کر مانگو، جیسے یوں کہو :’’أَنَا الْعَبْدُ الْفَقِیْرُ الْمِسْکِیْنُ الْبَائِسُ الْمُسْتَجِیْرُ‘‘۔ وغیرہ۔
    تیسرے: یہ کہ تم اس کے آگے ہاتھ پسارو، اس سے التجاء اور درخواست کرو، لیکن جو حاجت ہے، اُس کا ذکر نہ کرو۔
    پہلی قسم، دوسری قسم سے زیادہ بہتر و زیادہ کامل ہے، اور دوسری قسم، تیسری سے زیادہ اچھی اور کامل تر ہے۔ جس دعا میں یہ تینوں باتیں جمع ہوجائیں،وہ ان میں سب سے زیادہ کامل و جامع طریقۂ دعا ہے ۔‘‘
    رسالتِ مآب  ا کی دعائوں میں یہ تینوں باتیں پائی جاتی ہیں، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی دعائو ں میں بھی یہ تینوں خوبیاں یکجا موجود ہیں ، چنانچہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی مشہور دعا ہے:
    ’’ اللّٰھُمَّ إِنِّيْ ظَلَمْتُ نَفْسِيْ ظُلْماً کَثِیْراً ‘‘۔۔۔۔’’اے اللہ ! بے شک میں نے اپنی جان پر بہت ہی ظلم ڈھایا ہے‘‘۔یہ تو سائل کا حال ہے۔پھر جس سے در خواست کی جارہی ہے، اُس کی صفت کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے:’’  وَإِنَّہٗ لَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ إِلاَّ أَنْتَ‘‘۔۔۔۔۔’ اور بے شک تیرے سوا گناہوں کو معاف کرنے والا کوئی نہیں‘‘۔پھر فرمایا :’’  فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ‘‘۔۔۔۔’’سو آپ اپنی طرف سے مجھے بخش دیجئے ‘‘۔ اس جملے میں اپنی حاجت کا ذکر ہے، اور دعا کا خاتمہ دو اسماء حسنیٰ ’’غفور‘‘اور’’ رحیم‘‘ پر کیا گیا جو مطلوب کے مناسب اور اس کے تقاضوں کو پورا کرنے والے ہیں، چنانچہ خاتمۂ دعا میں کہا گیا ہے :’’  إِنَّکَ أَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ‘‘۔۔۔۔’’ بلا شبہ آپ ہی بخشنے والے مہربان ہیں‘‘۔
لفظ ’’أللّٰھم‘‘ سے دعائو ں کاآغاز:
    اکثر و بیشتر دعائوں کا آغاز’’ اللّٰھم‘‘ کے لفظ سے ہوتا ہے۔مشہور تابعی و نامور محدّث ابو رجاء عمران بن ملحان عطاردیؒ المتوفی۱۰۵ھ؁ کا قول ہے کہ :’’أللّٰہم‘‘ کے لفظ میں اللہ تعالیٰ کے ننانوے ناموں کے اسرار جمع ہیں ۔مشہور امام ِلغت نضر بن شمیل بصریؒ المتوفی ۲۰۴ھ؁ فرماتے ہیں: ’’أللّٰھمَّ‘‘ اللہ تعالیٰ کے تمام اسماء کاجامع ہے۔
دعا میں حضورِ قلب:
    حکیم الامت حضرت تھانویؒ ’’مہمّات الدعاء ‘‘میں رقمطراز ہیں :
’’صرف زبانی دعا کہ آموختہ سا رٹا ہوا پڑھ دیا، نہ خشوع نہ خشیت ، نہ دل میں اپنی عاجزی کا تصور ، یہ خالی از معنی دعا کیا ہوئی؟‘‘۔
    دعا میں جب تک کہ پورے طور پر قلب کو حاضر نہ کرے گا اور عاجزی اور فروتنی کے آثار اس پر نمایاں نہ ہوں گے، ایسی دعا،دعا نہیں خیال کی جاسکتی ،کیونکہ اللہ تعالیٰ تو قلب کی حالت کو دیکھتے ہیں۔
    یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہنا چاہئے کہ حصول مقصد کے لئے موقع ومحل کے اعتبار سے صحیح تدبیر اختیار کرنا لازمی امر ہے۔ جنگِ بدر کے موقع پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگی تیاری بھی کی اور دُعا بھی مانگی، اس طرح ہر مسلمان کے لئے زندگی کے مسائل کوحل کرنے کے لئے ان دونوں باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
    اس زمانے میں خواتین اورمرد سب ہی تعویذ گنڈوں کے چکر میں ہزاروں روپے لوگوں کودیتے ہیں اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پیر فقیر یہ کہہ کر چھوٹ جاتے ہیں کہ ہم نے توڑ کیا تھا، اس نے پھر جادو کردیا۔ اس طرح ساری عمر ،اوروقت بھی ضائع کرتے اور رقم بھی برباد کرتے ہیں۔یہ نتیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان تعلیمات اور موقع ومحل کی دعا اورذکر سے گریز کا ہے جوبنی نوع انسان کی گوناگوں پریشانیوں سے نجات کے لئے اس مجموعہ میں موجود ہیں۔
     ان اذکار اور دعاؤں سے ان شاء اللہ پریشانیوں سے نجات بھی حاصل ہوگی اور اجر وثواب بھی ملے گا اور انسان کا اللہ تعالی سے بندگی کا رشتہ بھی بندھا رہے گا، بلکہ تعلق ورشتہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا رہے گا اور ایمان پرخاتمہ نصیب ہوگا۔ مسلمان کی یہی سب سے بڑی آرزو اورکامیابی ہے۔

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین