کیا افطاری کے وقت دعا کرنے کا ثبوت ہے اور اگر ہے تو انفرادی یا اجتماعی یا ثبوت ہی نہیں؟
حدیث شریف میں آتا ہے کہ روزہ دار کی دعا افطاری کے وقت رد نہیں کی جاتی، اس سے پتا چلتا ہے کہ افطاری کے وقت دعا کرنا عند اللہ محبوب اور پسندیدہ ہے؛ لہذا اس وقت پوری توجہ و آداب کے ساتھ انفرادی طور پر خوب دعا مانگنی چاہیے۔
نیز افطار کی دعا حدیث سے ثابت ہے، وہ یہ ہے :
”اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ“.
افطار کے بعد کی ایک اور دعا بھی حدیث میں آتی ہے۔
’’ذَهَبَ الظَّمَأُ وَ ابْتَلَّتِ الْعُرُوْقُ وَ ثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَآءَ الله‘‘.
افطار کے وقت انفرادی طور پر دعا مانگنا بہتر ہے، البتہ اگر کبھی (مثلاً مسجد میں معتکفین کی اجتماعی افطاری کے وقت) اجتماعی دعا کرلی جائے اور اسے لازم یا فضیلت کا باعث نہ سمجھا جائے تو اس میں حرج نہیں ہے۔
سنن ابن ماجه (1/ 557):
"حدثنا هشام بن عمار قال: حدثنا الوليد بن مسلم قال: حدثنا إسحاق بن عبيد الله المدني، قال: سمعت عبد الله بن أبي مليكة، يقول: سمعت عبد الله بن عمرو بن العاص، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن للصائم عند فطره لدعوةً ما ترد». قال ابن أبي مليكة: سمعت عبد الله بن عمرو، يقول: إذا أفطر: اللهم إني أسألك برحمتك التي وسعت كل شيء أن تغفر لي".
سنن أبي داود (2/ 306) :
"2357 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى أَبُو مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنِي الْحُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ سَالِمٍ الْمُقَفَّعَ، قَالَ: «رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ يَقْبِضُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَيَقْطَعُ مَا زَادَ عَلَى الْكَفِّ» وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «ذَهَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ»".
وفیه أیضًا:
"عَنْ مُعَاذِ بْنِ زُهْرَةَ، أَنَّهُ بَلَغَهُ " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَفْطَرَ قَالَ: «اللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ، وَعَلَى رِزْقِكَ أَفْطَرْتُ»". (سنن أبي داود (2/ 306) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144109201047
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن