میں پانچ سال سے جیل میں تھا جیل جانے سے قبل میں نے آن لائن پڑھانے کے لیے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، اسٹوڈنٹ لنکس سب کچھ اپنی بیوی کو سکھا کر گیا میری بیوی ایک اچھی قاریہ ہے اس دوران وہ مجھ پر جیل میں خرچہ کرتی رہی ہے، جس کی مالیت تین لاکھ روپے ہے اور میرے جیل جانے کے بعد وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی گئی میرے والدین کو چھوڑ کر۔ پوچھنا یہ ہے کہ وہ مجھے بار بار جیل کے خرچے کے طعنے دے رہی ہے میں نے اس سے کہا میں تمہیں خرچہ دے دوں گا، مگر وہ اور اس کے والدین کہتے ہیں کہ پانچ سال میں بیوی کا بھی اور دو بیٹیوں کا خرچہ بھی دینا لازم ہوگا جس کی مالیت دس لاکھ بتا رہے ہیں، اس دوران میری بیوی نے مالیت 20 لاکھ روپے کا ایک پلاٹ بھی اپنے نام پر خریدا ہے جو اسی انکم سے ہے جو آن لائن سٹوڈنٹ اور اس سیٹ اَپ سے ہوا جو میں نے چھوڑا ۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ میرے لیے جیل کا خرچ واپس کرنا لازمی ہے یا بیوی بچوں کا خرچ بھی میرے ذمہ واپس کرنا ہے یا شریعت میں مجھ پر کچھ بھی لازم نہیں؛ کیوں کہ میں خود جیل میں تھا اور خرچہ کا مکلف نہیں تھا؟
واضح رہے کہ سائل نے اپنی بیوی کو آن لائن قرآن کریم کی تدریس کا طریقہ سکھا کر اس پر احسان کیا جس کا اجر سائل کو ان شاء اللہ ملےگا،اس تدریس سے سائل کی بیوی کو جو رقم مشاہرہ کی صورت میں ملتی رہی ہے، وہ سائل کی بیوی کی ملکیت ہے، سائل کا اس میں کوئی حق نہیں، اگر سائل چاہتا تو آن لائن تدریس کا طریقہ سکھانے کا عوض مقرر کرکے اپنی اہلیہ سے لیتا ،لیکن سائل نے ایسا نہیں کیا۔
سائل کی بیوی اگر سائل کی اجازت کے بغیر میکے گئی ہو تو اس کا خرچہ ادا کرنا سائل پر لازم نہیں،البتہ بچوں کا خرچہ ہر حال میں سائل کے ذمہ ہے۔
سائل کی اہلیہ نے دوران قید سائل پر جو خرچہ کیا ہے، اگر سائل کے کہنے پر یا قرض کہہ کر کیا ہے تو سائل پر اس کی ادائیگی لازم ہے، اور اگر قرض کہہ کر نہیں کیا، بلکہ شوہر کے کہنے کے بغیر از خود کیا ہے تو سائل پر اس کی ادائیگی لازم نہیں۔
باقی آن لائن تدریس کا حکم جاننے کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ ملاحظہ کیجیے:
آن لائن قرآن پڑھنے کے لیے وضو کا حکم
انٹرنیٹ کے ذریعہ قرآن پاک اور دیگر دینی علوم کی آن لائن تعلیم دینے اور اس پر اجرت لینے کا حکم
ماہ واری کے ایام میں عورت کے لیے آن لائن قرآنِ مجید پڑھنا
الدرالمختار ہے:
( لا ) نفقة لأحد عشر مرتدة...... و ( خارجة من بيته بغير حق ) وهي الناشزة حتى تعود.
(باب النفقۃ/ج:3/ص:576/ط:دارالفکر)
البحرالرائق میں ہے:
( قوله لا ناشزة ).... يقال نشزت المرأة على زوجها فهي ناشزة ،قال الإمام الخصاف الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه والمراد بالخروج كونها في غير منزله بغير إذنه....
(باب النفقۃ/ج:4/ص:194 ط:دارالمعرفہ)
البحرالرائق میں ہے:
"قَوْلُهُ: (وَ لِطِفْلِهِ الْفَقِيرِ) أَيْ تَجِبُ النَّفَقَةُ وَالسُّكْنَى وَالْكِسْوَةُ لِوَلَدِهِ الصَّغِيرِ الْفَقِيرِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: { وَعَلَى الْمَوْلُودِ له رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ } البقرة 332 ... وَالْحَاصِلُ أَنَّ الْأَبَ لَا يَخْلُو إمَّا أَنْ يَكُونَ غَنِيًّا أو فَقِيرًا وَالصَّغِيرُ كَذَلِكَ فَإِنْ كان الْأَبُ وَالصَّغِيرُ غَنِيَّيْنِ فإن الْأَبَ يُنْفِقُ عليه من مَالِ نَفْسِهِ .....وَإِنْ كان الْأَبُ غَنِيًّا وَالْوَلَدُ الصَّغِيرُ فَقِيرًا فَالنَّفَقَةُ على الْأَبِ إلَى أَنْ يَبْلُغَ الذَّكَرُ حَدَّ الْكَسْبِ وَإِنْ لم يَبْلُغْ الْحُلُمَ فإذا كان هذا كان لِلْأَبِ أَنْ يُؤَاجِرَهُ وَيُنْفِقَ عليه من أُجْرَتِهِ وَلَيْسَ له في الْأُنْثَى ذلك...."
(کتاب الودیعۃ/ج:4/ص:18-219/ط:دارالمعرفہ)
الجوہرۃ میں ہے:
"ونفقة النسب ثلاثة أضرب منها نفقة الأولاد وهي تجب على الأب موسرًا كان أو معسرًا إلا أنه يعتبر أن يكون الولد حرًّا والأب كذلك وأن يكون الولد فقيرًا."
(کتاب النفقات /ج:4/ص:325)
تنقیح الفتاوی الحامدیہمیں ہے:
"المتبرع لایرجع بما تبرع بہ علی غیرہ."
(ج:2/ص:391/ط:رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144201201210
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن