بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن قرآن اکیڈمی کھولنا


سوال

1.آن لائن قرآن اکیڈمی چلاناکیسا ہے، جائز ہے  یا ناجائز؟

2۔آن لائن قرآن اکیڈمی چلاتے ہوئے کیا ہم کوئی آن لائن قرآن ٹیچر رکھ کر اس کو 50% معاوضہ دے سکتے ہیں اس سٹوڈنٹ کے منتھلی ہدیہ میں سے؟ یا ہم اس آن لائن قرآن ٹیچر کو جتنی ہم چاہیں تنخواہ دے سکتے ہیں، اس سٹوڈنٹ کے منتھلی ہدیہ میں سے؟ ہم اپنے سٹوڈنٹس سے منہ مانگی  فیس نہیں لیتے، جتنا وہ خود ہدیہ  دینا چاہتا ہے ہم لیتے ہیں۔

3۔کیا ہم سٹوڈنٹس سے منہ مانگی  فیس بھی لے سکتے ہیں؟

جواب

کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ قرآن کی تعلیم  کسی مستند قاری سے  بالمشافہہ حاصل کی جائے،  اسی طرح قرآن پڑھانے والا بھی آن لائن کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر لوگوں کو پڑھائے، اس طریقہ  میں برکت بھی ہے اور یہ تعلیمی افادہ اور استفادہ کے لیے موزوں بھی ہے، تاہم جہاں ضرورت ہو تو  آن لائن اکیڈمی کھولنا اور اس کے ذریعہ قرآنِ کریم کی تعلیم دینا درست ہے۔ البتہ مندرجہ ذیل باتوں کا لحاظ لازم ہے:

1- قرآن کی تعلیم کے لیے ویڈیو کالنگ کا استعمال نہ کیا جائے، اس لیے کہ ویڈیو کالنگ شرعاً تصویر کے حکم میں ہے، ہاں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ ویڈیو کالنگ میں جان دار کی تصاویر سامنے نہ لائی جائیں، بلکہ ویڈیو میں قرآن مجید کو سامنے رکھ لیا جائے  تو اس طرح پڑھانا جائز ہوگا۔

2-قریب البلوغ اور بالغہ خواتین کو مرد قاری پڑھانے سے اجتناب کرے۔

آن لائن قرآن کریم پڑھانے والے ٹیچر چوں کہ اکیڈمی کے ملازم ہوتے ہیں؛ اس لیے ان کے لیے ماہانہ اجرت مقرر کرنا لازم ہے، طلبہ سے ملنے والے غیر متعین ہدیہ میں سے پچاس فیصد کے حساب سے اجرت مقرر نہیں کی جاسکتی۔ ماہانہ ایکمتعینرقم بطور اجرت مقرر کی جائے۔

اکیڈمی والے اسٹوڈنٹس سے فیس مقرر کرکے رقم لے سکتے ہیں، البتہ اتنی رقم بطور فیس طے کی جائے جو عرف کے لحاظ سے مناسب اجرت ہو۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144202200147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں