بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کلاسز کا حکم


سوال

 آن لائن کلاسز کا کیا حکم ہے؟ اس میں اسکرین پر صرف بورڈ آرہا ہوتا ہے، البتہ سائڈ میں پڑھانے والے کی تصویر آرہی ہوتی ہے جو کہ مرد ہیں، نیز اس تصویر کو چھپایا جاسکتا ہے، اس طرح کی آن لائن کلاسز کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ میں کسی  بھی  جان دار  چیز کی تصویر کشی   کرنا حرام ہے ، خواہ وہ  تصویر کشی کسی ڈیجیٹل کیمرے کے ذریعہ سے ہو یا غیر ڈیجیٹل کیمرے سے، بہر صورت ناجائز اور حرام ہے، ویب کیمرے کا استعمال بھی شرعاً تصویر کشی کے حکم میں ہے۔

بصورتِ مسئولہ کوشش تو یہی کرنی چاہیے کہ تعلیم  آن لائن کلاسز کے بجائےکسی مستند استاذ سے  بالمشافہہ حاصل کی جائے،  اسی طرح  پڑھانے والےکو بھی چاہیے کہ آن لائن پڑھانے کے بجائے آمنے سامنے بیٹھ کر لوگوں کو پڑھائے، اس طریقہ  میں برکت بھی ہے اور یہ تعلیمی افادہ اور استفادہ کے لیے موزوں بھی ہے، تاہم اگر کوئی ضرورت ہو یعنی کسی جگہ صحیح  پڑھانے والا دست یاب نہ ہو یا اور کوئی عذر ہو   اور انٹرنیٹ کے ذریعے کلاسز لی جائیں، یہ جائز ہے ، لیکن  اس کو مندرجہ ذیل طریقہ پر پڑھاجائے:

1-  آن لائن تعلیم  محض صوتی یعنی صرف آواز ( آڈیو کال )  کے ذریعہ ہو، ایک  دوسرے کی تصویر  نظر نہ آئے یعنی تعلیم کیمرے (ویڈیوکال وغیرہ )کے ذریعہ  نہ  ہو، اگر دوران تعلیم کیمرے کا استعمال ہو تو  کیمرے کا رخ (فوکس) غیرجان دار  چیز (بورڈ، کتاب وغیرہ)   پر ہو، کیمرے کے سامنے  استاذ یا طالبِ علم/ طلبہ کا آنا جائز نہیں ہے، اس لیے کہ ویڈیو کالنگ شرعاً تصویر کے حکم میں ہے، ہاں یہ صورت اختیار کی جاسکتی ہے کہ ویڈیو کالنگ میں جان دار کی تصاویر سامنے نہ لائیں جائیں، بلکہ ویڈیو میں کتاب کو سامنے رکھ لیا جائے  تو اس طرح آن لائن پڑھانا جائز ہوگا۔

2- قریب البلوغ اور بالغہ خواتین کو مرد پڑھانے سے اجتناب کرے۔

حدیث شریف میں ہے:

عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: «إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون».

(صحيح البخاري: كتاب اللباس، باب عذاب المصورين، رقم:5950،  ص: 463، ط: دار ابن الجوزي)

فتاوی شامیمیں ہے:

وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ.

(حاشية ابن عابدين: كتاب الصلاة، مطلب: مكروهات الصلاة، 1/647، ط: سعيد)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"والتصوير...[لغةً]:صنع الصورة التي هي تمثال الشيء، أي: ما يماثل الشيء ويحكي هيئته التي هو عليها، سواء كانت الصورة مجسمة أو غير مجسمة، أو كما يعبر بعض الفقهاء: ذات ظل أو غير ذات ظل.

والمراد بالصورة المجسمة أو ذات الظل ما كانت ذات ثلاثة أبعاد، أي لها حجم، بحيث تكون أعضاؤها نافرة يمكن أن تتميز باللمس، بالإضافة إلى تميزها بالنظر.

وأما غير المجسمة، أو التي ليس لها ظل، فهي المسطحة، أو ذات البعدين، وتتميز أعضاؤها بالنظر فقط، دون اللمس؛ لأنها ليست نافرة، كالصور التي على الورق، أو القماش، أو السطوح الملساء.

والتصوير والصورة في اصطلاح الفقهاء يجري على ما جرى عليه في اللغة.

(تصویر،التعریف ،ج:۱۲،ص:۹۳،ط:وزارۃ الاوقاف )

بدائع الصنائع  للکاسانی میں ہے:

" فأما صورة ما لا حياة له كالشجر ونحو ذلك فلايوجب الكراهة؛ لأن عبدة الصور لايعبدون تمثال ما ليس بذي روح، فلا يحصل التشبه بهم، وكذا النهي إنما جاء عن تصوير ذي الروح لما روي عن علي - رضي الله عنه - أنه قال: من صور تمثال ذي الروح كلف يوم القيامة أن ينفخ فيه الروح، وليس بنافخ.........الخ

(كتاب الصلاة، فصل شرائط أركان الصلاة ،ج:۱،ص:۱۱۵، ط: دار الكتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200547

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں