1۔ میرا سوال یہ ہے کہ جو بنو ہاشم ہیں اور بنو ہاشم کے ذیلی قبائل ہیں ان پر صدقہ یا زکوٰۃ لگتا ہے یا نہیں؟ جیسا کہ حضرت جعفر حضرت عباس بن عبدالمطلب حضرت عقیل بن ابو طالب اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولادیں ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک اولاد وہ ہے جو نواسہ رسول سے چلی اور باقی دیگر تین غیر فاطمی بیٹوں سے چلی ہے جو علوی یا اعوان و قطب شاہی کہلواتے ہیں۔ برائے مہربانی یہ مسئلہ بتادیں کے تمام اولادِ ہاشم جو مسلمان ہیں ان پر زکوٰۃ لگتی ہے یا نہیں؟
2۔ تمام بنو ہاشم یا تمام اولادِ علی کے لیے سید لقب کا استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟
1۔ بنو ہاشم (جن پر زکوٰة حرام کی گئی ہے) سے مراد حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی آل و اولاد (خواہ وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہوں یا دوسری ازواج کے بطن سے) حضرت عباس بن عبد المطلب، جعفر بن ابی طالب، و عقیل بن ابی طالب، و حارث بن عبد المطلب رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اولاد ہیں، ان کے علاوہ بنو ہاشم کے دیگر ذیلی قبائل، جیسے ابو لہب کی اولاد وغیرہ ان میں سے جو مسلمان ہوگئے ان پر زکوٰة حرام نہیں۔
پس صورتِ مسئولہ میں نہ تمام بنو ہاشم پر زکوٰة لینا حرام ہے اور نہ ہی تمام کے لیے لینا حلال ہے، البتہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تمام اولاد خواہ حسنی ہوں یا حسینی، علوی، یا اعوان یا قطب شاہی، ان سب کے لیے زکوٰة لینا حرام ہے، اسی طرح سے عباسی، جعفری، آل عقیل (جو عقیلی کہلاتے ہیں) اور آل حارث (جو حارثی کہلاتے ہیں) کے لیے زکوٰة لینا حرام ہے۔
رد المحتار على الدر المختار میں ہے:
"(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب. ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع، وقول العيني والهاشمي: يجوز له دفع زكاته لمثله صوابه لايجوز، نهر.
(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعة وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعة انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب فإنه أعقب اثني عشر تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي إذ لا تحرم عليهم كلهم بل على بعضهم ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضا إلى هاشم وتحل لهم الصدقة. اهـ.
وأجاب في النهر بقوله وأقول قال في النافع بعد ذكر بني هاشم إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم: «لا قرابة بيني وبين أبي لهب فإنه آثر علينا الأفجرين» وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل لعدم قرابته وهذا حسن جدا لم أر من نحا نحوه فتدبره. اهـ. (قوله: بنو لهب) في بعض النسخ: بنو أبي لهب وهي أصوب (قوله: فتحل لهم) هذا ما جرى عليه جمهور الشارحين خلافا لما في غاية البيان كما في البحر والنهر (قوله: لبني المطلب) أي لمن أسلم منهم وهو أخو هاشم كما مر."
( كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة و العشر، ٢ / ٣٥٠، ط: دار الفكر)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وَلَايُدْفَعُ إلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَهُمْ آلُ عَلِيٍّ وَآلُ عَبَّاسٍ وَآلُ جَعْفَرِ وَآلُ عَقِيلٍ وَآلُ الْحَارِثِ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ كَذَا فِي الْهِدَايَةِ وَيَجُوزُ الدَّفْعُ إلَى مَنْ عَدَاهُمْ مِنْ بَنِي هَاشِمٍ كَذُرِّيَّةِ أَبِي لَهَبٍ؛ لِأَنَّهُمْ لَمْ يُنَاصِرُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَذَا فِي السِّرَاجِ الْوَهَّاجِ. هَذَا فِي الْوَاجِبَاتِ كَالزَّكَاةِ وَالنَّذْرِ وَالْعُشْرِ وَالْكَفَّارَةِ فَأَمَّا التَّطَوُّعُ فَيَجُوزُ الصَّرْفُ إلَيْهِمْ كَذَا فِي الْكَافِي، وَكَذَا لَايُدْفَعُ إلَى مَوَالِيهِمْ كَذَا فِي الْعَيْنِيِّ شَرْحِ الْكَنْزِ. وَيَجُوزُ صَرْفُ خُمُسِ الرِّكَازِ وَالْمَعْدِنِ إلَى فُقَرَاءِ بَنِي هَاشِمٍ، كَذَا فِي الْجَوْهَرَةِ النَّيِّرَةِ."
( كتاب الزكوة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر)
2۔ بنی ہاشم میں سے حضرت علی، حضرت جعفر، حضرت عباس، حضرت عقیل اور حارث بن عبد المطلب رضی اللہ عنہم کی اولاد سب ’’سادات‘‘ ہیں۔ ان سب کے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ لگانا جائز ہے، لیکن عرف میں ’’سید‘‘ کی اصطلاح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس اولاد کے لیے مشہور ہوچکی ہے جو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے بطن سے ہے، لہذا دیگر کے لیے اپنے نام کے ساتھ ’’سید‘‘ لگانا مناسب نہیں ہے، خصوصاً جہاں اشتباہ ہو، کیوں کہ یہ ان کی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نسبی نسبت کی علامت ہے؛ لہٰذا صرف حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی نسل سے آنے والے گھرانوں کو ’’سید‘‘ کہنا چاہیے۔
الحاوي للفتاوي میں ہے:
"الوجه الرابع: أنهم هل يطلق عليهم أشراف؟ والجواب: إن اسم الشريف كان يطلق في الصدر الأول على كل من كان من أهل البيت سواء كان حسنيًّا أم حسينيًّا أم علويًّا، من ذرية محمد بن الحنفية وغيره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفريًّا أم عقيليًّا أم عباسيًّا، ولهذا تجد تاريخ الحافظ الذهبي مشحونًا في التراجم بذلك يقول: الشريف العباسي، الشريف العقيلي، الشريف الجعفري، الشريف الزينبي، فلما ولي الخلفاء الفاطميون بمصر قصروا اسم الشريف على ذرية الحسن والحسين فقط، فاستمر ذلك بمصر إلى الآن، وقال الحافظ ابن حجر في كتاب الألقاب: الشريف ببغداد لقب لكل عباسي، وبمصر لقب لكل علوي انتهى.
ولا شك أن المصطلح القديم أولى وهو إطلاقه على كل علوي وجعفري وعقيلي وعباسي كما صنعه الذهبي وكما أشار إليه الماوردي من أصحابنا، والقاضي أبو يعلى بن الفراء من الحنابلة كلاهما في الأحكام السلطانية، ونحوه قول ابن مالك في الألفية: وآله المستكملين الشرفا، فلا ريب في أنه يطلق على ذرية زينب المذكورين أشراف، وكم أطلق الذهبي في تاريخه في كثير من التراجم قوله: الشريف الزينبي، وقد يقال: يطلق على مصطلح أهل مصر: الشرف أنواع عام لجميع أهل البيت، وخاص بالذرية، فيدخل فيه الزينبية وأخص منه شرف النسبة، وهو مختص بذرية الحسن والحسين."
( كتاب الأدب والرقائق، العجاجة الزرنبية في السلالة الزينبية، ٢ / ٣٩، ط: دار الفكر)
مزید تفصیل کے لیے لنک میں موجود جاری شدہ فتاوی دیکھیے:
اعوان برادری کو زکوۃ دینے کاحکم
سادات، آلِ رسول، اور اہلِ بیت کا مصداق
سادات کا اپنے نام کے ساتھ سید یا علی لکھنا
سید کا لفظ کس کے لیے بولا اور لکھا جائے؟
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144203201349
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن