بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اعوان برادری کو زکوۃ دینے کاحکم


سوال

کیا اعوان شخص اعوان کو زکات دے سکتا ہے?

جواب

واضح رہےجس مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے وغیرہ)سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر) مال یا سامان موجود نہ ہو  اور وہ سید/ عباسی نہ ہو، وہ زکاۃ کا مستحق ہے،اس کو زکاۃ دینا اور اس کے لیے ضرورت کے مطابق زکاۃ لینا جائز ہے

بصورت مسئولہ اگر اعوان برادری کا سلسلہٴ نسب بہ واسطہ محمد بن الحنفیہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچتا ہے(جیسا کہ مشہور ہے) اور اعوان برادری کے پاس اس سلسلہ میں مستند شجرہٴ نسب بھی موجود ہے تو یہ برادری سادات سے شمار ہوگی اور ان کا آپس میں ایک دوسرے کو زکوة دینا جائز نہ ہوگا اور نہ ہی کسی دوسری برادری کا انھیں زکوة دینا جائز ہوگا۔ اوراگر یہ محض سنی سنائی یا مشہور کی ہوئی بات ہے تو ایسی صورت میں اعوان برادری کے اہل علم حضرات کو چاہیے کہ وہ اپنی برادری کے متعلق تحقیق کریں کہ یہ برادری واقعتاً سادات سے ہے یا نہیں؟ اور اگر سید نہیں ہے اور نہ ہی صاحب نصاب ہے تو زکوۃ کا مستحق ہونے کی وجہ سے  ایک دوسرے کو بھی زکوۃ دے سکتے ہیں اور دوسری برادری کا بھی انھیں زکوۃ دینا جائز  ہوگا،

فتاوی ہندیہ میں ہے

اما تفسیرھا فھی تملیک المال من فقیر مسلم غیرھاشمی ولامولاہ بشرط قطع المنفعة عن المملک من کل وجه لله تعالی ھذا فی الشرع(ہندیه،ج:1 ص:170،کتاب الزکوۃ،ط:مکتبه حقانیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے

ولا یدفع إلی بني ھاشم وھم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقیل وآل الحارث بن عبد المطلب کذا فی الھدایة، ویجوز الدفع إلی من عداھم کذریة أبي لھب ؛ لأنھم لم یناصروا النبي صلی اللہ علیہ وسلم کذا فی السراج الوھاج (الفتاوی الھندیة، کتاب الزکاة، الباب السابع فی المصارف، ۱: ۱۸۹، ط: المکتبة الحقانیة) فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144110200836

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں