بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 جُمادى الأولى 1446ھ 13 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

سید کا لفظ کس کے لیے بولا اور لکھا جائے؟


سوال

اکثر اوقات کہا جاتا ہے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل اولاد کے علاوہ کسی کے ساتھ لفظ ’’سید‘‘  نہیں لگا سکتے،  مثلاً حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ عنہم، ان کے ساتھ بھی نہیں لگاسکتے،  ہاں حضرت علی کے لیے لگا سکتے ہیں، کیوں کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان سے ہیں۔ اس معاملے میں میری راہ نمائی فرمائیں!

جواب

بنی ہاشم میں سےحضرت  جعفر ، حضرت حارث بن عبد المطلب ،حضرت علی ،حضرت  عباس ، حضرت جعفر، حضرت عقیل رضی اللہ عنہم کی اولاد سب ’’سادات‘‘  ہیں۔  ان سب کے نام کے ساتھ ’’سید‘‘  لگانا جائز ہے، لیکن عرف میں ’’سید‘‘ کی اصطلاح حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس اولاد کے لیے مشہور ہوچکی ہے جو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا سے ہے، لہذا دیگر کے لیے اپنے نام کے ساتھ  ’’سید‘‘  لگانا مناسب نہیں ہے، خصوصاً جہاں اشتباہ ہو ۔

حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق ، عثمان غنی رضی اللہ عنہم اجمعین کی اولاد و خاندان کا تعارف ’’صدیقی ، فاوقی ، عثمانی ‘‘ کے ساتھ مشہور ہے۔لہذا ان کو سید کہنا درست نہیں ۔

امام عبد الرحمن جلال الدین سیوطی شافعی (متوفی : 911 ھ) رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسا لہ "العجاجة الزرنبیة في السلالة الزینبیة" میں ارقام کرتے ہیں :

"إن اسم الشریف کان یطلق في الصدر الأول علی کل من کان من أهل البیت، سواء کان حسنیاً أم حسینیاً أم علویاً من ذریة محمد بن الحنفیة وغیره من أولاد علي بن أبي طالب، أم جعفریاً أم عقیلیاً أم عباسیاً ... فلما ولی الخلفاء الفاطمیون بمصر، قصروا اسم الشریف علی ذریة الحسن والحسین فقط، فاستمر ذلك بمصر إلی الآن".
ترجمہ : یعنی بے شک ’’سید‘‘ کا اطلاق قرونِ اولی میں ہر اُس شخص پر ہوتا تھا جو اہلِ بیت کرام سے ہو، چاہے وہ حسنی ہو ،حسینی ہو ،یا علوی ہو محمد بن حنفیہ کی اولاد اور دیگر اولادِ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، یا جعفری ہو یا عقیلی ہو یاعباسی ۔۔۔  جب مصر میں خلفاءِ فاطمیین کو حکومت ملی تو انہوں نے سید  کا لفظ فقط  حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی اولاد کے  لیے مختص کردیا، چناں چہ یہ تخصیص اس دور سے اب تک قائم ہے‘‘ ۔ (الحاوی للفتاوی للسیوطی ۔ جلد02 ۔ صفحہ39 ۔ دارالفکر ۔ بیروت)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 350):

’’(قوله: وبني هاشم إلخ) اعلم أن عبد مناف وهو الأب الرابع للنبي صلى الله عليه وسلم أعقب أربعةً وهم: هاشم والمطلب ونوفل وعبد شمس، ثم هاشم أعقب أربعةً، انقطع نسل الكل إلا عبد المطلب؛ فإنه أعقب اثني عشر، تصرف الزكاة إلى أولاد كل إذا كانوا مسلمين فقراء إلا أولاد عباس وحارث وأولاد أبي طالب من علي وجعفر وعقيل، قهستاني، وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لاينبغي؛ إذ لاتحرم عليهم كلهم، بل على بعضهم، ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضاً إلى هاشم، وتحل لهم الصدقة. اهـ.

وأجاب في النهر بقوله: وأقول: قال في النافع بعد ذكر بني هاشم: إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم: «لا قرابة بيني وبين أبي لهب؛ فإنه آثر علينا الأفجرين»، وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل؛ لعدم قرابته، وهذا حسن جداً، لم أر من نحا نحوه، فتدبره. اهـ‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں