بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سادات، آلِ رسول، اور اہلِ بیت کا مصداق


سوال

سید، سادات، آلِ رسول اور اہلِ بیت رسول میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں کون کون شامل ہیں؟ اور صحابہ رسول اور اور اہلِ بیتِ رسول میں مرتبہ کس کا بلند ہے؟  کیوں کہ بعض حضرات صحابہ کا درجہ بلند کرتے ھیں اور بعض لوگ اہلِ بیت کا؟

جواب

’’سید‘‘  کے مصداق وہ لوگ ہیں جو حضرت علی، حضرت جعفر ،حضرت عباس اورحضرت عقیل اورحضرت حارث  رضوان اللہ علیہم اجمعین  کی اولاد میں سے ہیں، ان سب پر صدقہ حرام ہے۔

اور اہلِ بیت سے مراد  ازواجِ مطہرات اور نبی کریم ﷺ  کی آل و اولاد اور داماد یعنی حضرت علی کرم اللہ وجہہ شامل ہیں، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہ ’’معارف القرآن‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں: 

’’ بعض آئمہ تفسیر نے اہلِ بیت سے مراد  صرف ازواجِ مطہرات کو قرار دیا ہے۔ حضرت عکرمہ و مقاتل نے یہی فرمایا ہے اور سعید بن جبیر نے حضرت ابن عباس سے بھی یہی روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات کو قرار دیا۔ اور استدلال میں اگلی آیت پیش فرمائی،(آیت) {واذکرن مایتلی في بیوتکن} (رواه ابن أبي حاتم وابن جریر) اور سابقہ آیات میں نساءالنبی کے الفاظ سے خطاب بھی  اس کا قرینہ ہے۔ حضرت عکرمہ تو بازار میں منادی کرتے تھے، کہ آیت میں اہلِ بیت سے مراد ازواجِ مطہرات ہیں؛ کیوں کہ یہ آیت اِن ہی کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ اور فرماتے تھے کہ میں اس پر مباہلہ کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
لیکن حدیث کی متعدد روایات جن کو ابنِ کثیر نے اس جگہ نقل کیا ہے اس پر شاہد  ہیں کہ اہلِ بیت میں حضرت فاطمہ اور علی اور حضرت حسن وحسین بھی شامل ہیں،  جیسے ’’صحیح مسلم‘‘  کی حدیث حضرت عائشہ کی روایت سے ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے باہر تشریف لے گئے اور اس وقت آپ ایک سیاہ رومی چادر اوڑھے ہوئے تھے، حسن بن علی آ گئے تو ان کو اس چادر میں لے لیا، پھر حسین آ گئے، ان کو بھی اسی چادر کے اندر داخل فرما لیا، اس کے بعد حضرت فاطمہ پھر حضرت علی مرتضیٰ ؓ آ گئے، ان کو بھی چادر میں داخل فرما لیا، پھر یہ آیت تلاوت فرمائی (آیت) {انما یرید الله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهركم تطهيرًا}.  اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ آیت پڑھنے کے بعد فرمایا: "اللّٰهم هٰولاء أهل بیتي". (رواہ ابن جریر)
ابن کثیر نے اس مضمون کی متعدد احادیثِ معتبرہ نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ درحقیقت ان دونوں اقوال میں جو آئمہ تفسیر سے منقول ہیں کوئی تضاد نہیں، جن لوگوں نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت ازواجِ مطہرات کی شان میں نازل ہوئی اور اہلِ بیت سے وہی مراد ہیں یہ اس کے منافی نہیں کہ دوسرے حضرات بھی اہلِ بیت میں شامل ہوں‘‘۔ (معارف القرآن)

اور آلِ رسول کے مصداق میں متعدد اقوال ہیں، بعض محقیقن نے اس سے آپ ﷺ کی اولاد مراد لی ہے، اور اکثر  نے قرابت دار مراد لیے ہیں جن پر صدقہ حرام ہے، اور بعض نے مجازاً اسے تمام امتِ مسلمہ مراد لی ہے۔

باقی مختلف صحابہ کرام کے مختلف فضائل وارد ہوئے ہیں، اور اہلِ بیت کے مستقل فضائل وارد ہوئے ہیں،  اور ان سے محبت ایمان کی علامت ہے۔ اور اہلِ بیت بھی صحابہ کرام  میں ہی داخل ہیں، اور عمومی صحابہ کرام کی درجہ بندی میں سب سے پہلے چاروں خلفاءِ راشدین بالترتیب، پھر عشرہ مبشرہ، پھر اصحابِ بدر، اس کے بعد اصحابِ احد، اور پھر بیعتِ رضوان کے شرکاء، اور اس کے بعد فتح مکہ اور اس کے بعد مسلمان ہونے والے صحابہ کرام کا شمار ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمومی فضائل اور تمام درجہ بندیوں میں جو جو اہلِ بیت شامل ہیں وہ فضائل ان کے بھی ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہلِ بیتِ کرام کے فضائل کی تفصیل کے لیے کتبِ احادیث کے ’’ابواب المناقب‘‘ ملاحظہ کیے جائیں۔ نیز اہلِ بیت کے فضائل کے لیے علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللہ کے رسائل (رسائل ابن عابدین) میں مستقل رسالہ موجود ہے، اس سے استفادہ کیا جاسکتاہے۔صحيح مسلم (4 / 1873):
"(2408) حدثني زهير بن حرب، وشجاع بن مخلد، جميعًا عن ابن علية، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني أبو حيان، حدثني يزيد بن حيان، قال: انطلقت أنا وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم، إلى زيد بن أرقم، فلما جلسنا إليه قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرًا كثيرًا، رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه، وصليت خلفه لقد لقيت، يا زيد خيرًا كثيرًا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابن أخي والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي، ونسيت بعض الذي كنت أعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فما حدثتكم فاقبلوا، وما لا، فلاتكلفونيه، ثم قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يومًا فينا خطيبًا بماء يدعى خمًا بين مكة والمدينة، فحمد الله وأثنى عليه، ووعظ وذكر، ثم قال: " أما بعد، ألا أيها الناس! فإنما أنا بشر يوشك أن يأتي رسول ربي فأجيب، وأنا تارك فيكم ثقلين: أولهما كتاب الله فيه الهدى
والنور فخذوا بكتاب الله، واستمسكوا به"؛ فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: «وأهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي، أذكركم الله في أهل بيتي». فقال له حصين: ومن أهل بيته؟ يا زيد! أليس نساؤه من أهل بيته؟ قال: نساؤه من أهل بيته، ولكن أهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم".

 ترجمہ: ۔۔۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:  رسول اللہ ﷺ نے ایک دن مقامِ (غدیرِ) ’’خم‘‘ پر  جو مکہ و مدینہ کے درمیان ہے، خطبہ دیا، چناں چہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی، اور وعظ و نصیحت فرمائی، پھر فرمایا: اما بعد! آگاہ رہو اے لوگو! میں بھی ایک انسان ہوں،  ممکن ہے کہ میرے رب کا پیغام رساں (موت کا فرشتہ) میرے پاس آئے تو میں اسے لبیک کہوں، اور میں تم میں دو بہت اہم (اور بھاری چیزیں) چھوڑ رہاہوں: پہلی چیز ’’کتاب اللہ‘‘ ہے، اس میں ہدایت اور نور ہے، لہٰذا اللہ کی کتاب کو پکڑ لو اور مضبوطی سے تھام لو؛ پھر آپ ﷺ نے اللہ کی کتاب کے حوالے سے کافی شافی ترغیب ارشاد فرمائی۔ پھر فرمایا: (اور دوسری چیز) میرے اہلِ بیت،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں،  میں تمہیں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے لحاظ (یاد رکھنے) کی تاکید کرتاہوں۔   (یہ سن کر) راوی حدیث حصین رحمہ اللہ نے حضرت زید بن ارقم سے کہا: اہلِ بیت سے مراد کون ہیں؟ اے زید کیا آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں سے نہیں ہیں؟ (کیوں کہ بنیادی طور پر مذکورہ خطبہ ’’غدیرِ خم‘‘  کے مقام پر درحقیقت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا تھا، اس پس منظر کی وجہ سے راوی نے مذکورہ سوال کیا)  تو حضرت زید بن ارقم نے فرمایا: (ہاں!) آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات اہلِ بیت میں ہیں، لیکن (یہاں مراد) اہلِ بیت (سے) وہ ہیں جن پر رسول اللہ ﷺ کے بعد صدقہ حرام ہے۔ راوی نے پوچھا: وہ کون ہیں؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ آلِ علی،  آلِ عقیل، آلِ جعفر اور آلِ عباس ہیں۔ راوی نے کہا: کیا ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جی ہاں!

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 13):
"(قوله: وعلى آله) اختلف في المراد بهم في مثل هذا الموضع؛ فالأكثرون أنهم قرابته صلى الله عليه وسلم الذين حرمت عليهم الصدقة على الاختلاف فيهم، وقيل: جميع أمة الإجابة، وإليه مال مالك، واختاره الأزهري والنووي في شرح مسلم، وقيل غير ذلك، شرح التحرير.وذكر القهستاني: أن الثاني مختار المحققين". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں