بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کے بارے میں فقہی تفصیل


سوال

حرمت مصاہرت کے علمی اثرات کیا ہیں؟سماجی اثرات کیا ہیں ؟اور فکری اثرات کیا ہیں؟

 

جواب

سائل کا سوال  کا انداز انتہائی عمومی ہونے کے ساتھ مبہم اور غیر مفہوم ہے ،لہذا ضابطے کے مطابق جو پیش آمدہ مسئلہ ہو اس کے بارے میں  سوال جمع کرلیا کریں ۔

البتہ حرمت مصاہرت کے بارے میں فقہی  وضاحت یہ ہے :

حرمتِ مصاہرت:انسانوں کے درمیان  تعلقات اور محرم رشتے دو طرح کے ہوتے ہیں ،  ایک  نسب اور خون  کے رشتے، اور دوسرے  سسرالی  رشتے،  اس سسرالی رشتے کو  ”مصاہرت“  کہتے ہیں ، جیسے: سسر، ساس، اور ان کے اصول یعنی  ان کا پدری اور مادری سلسلہ، اور بیوی کی بیٹی، شوہر کا بیٹا وغیرہ، ان رشتہ داروں سے حرمت کو”حرمتِ مصاہرت“  کہا جاتا ہے، اسلام نے  نسب اور مصاہرت دونوں قسم کے رشتوں کے احترام کا حکم دیا ہے،

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا} [الفرقان: 54]

 ترجمہ:”اللہ وہ ذات ہے  جس نے پانی سے انسان کو بنایا اور پھر اس کو خاندان والا اور سسرال والا بنایا“۔

 اور اللہ پاک نے یہ تذکرہ  احسان شمار کرنے کی جگہ پر  کیا ہے جو ان رشتوں کی عظمت اور قابلِ احترام ہونے کی دلیل ہے۔

حرمتِ مصاہرت کی تفصیل:

تین اسباب کی وجہ سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوتی ہے:

1):نکاح سے

2):زنا سے

3):بلا حائل شہوت سے چھونے سے

(1)نکاح کے سبب محرمات کی چار قسمیں ہیں :

(1) بیویوں کی مائیں اور ان کی دادیاں،نانیاں(بیوی کے اصول) جہاں تک اوپر کی طرف چلتے جائیں، یہ حرمت نکاح کرتے ہی قائم ہوجاتی ہے، چاہے دخول ہوا ہو یا نہیں ۔

(2) بیوی کی بیٹیاں اور بیٹیوں کی اولاد(بیوی کی فروعات) جس قدر بھی نیچے جائیں، لیکن یہ حرمت اس وقت قائم ہوتی ہے جب بیوی کے ساتھ مباشرت ہو گئی ہو۔

(3) بیٹے کی بیوی‘ پوتے کی بیوی‘ نواسے کی بیوی جس قدر نیچے کو چلتے جائیں، اس لیے ایک شخص کے لیے اپنے صلبی بیٹے کی بیوی سے نکاح حرام ہے، اسی طرح صلبی پوتے کی بیوی کے ساتھ نکاح حرام ہے، اسی طرح لڑکی کے لڑکے کی بیوی کے ساتھ نکاح بھی حرام ہوگا، جس قدر نیچے چلتے جائیں۔

(4) باپ ،دادا اور ناناکی عورتیں خواہ وہ علاتی ہوں یا اخیافی۔ نانی دادی دائما حرام ہیں، جس قدر اوپر چلے جائیں ۔

نیز بیوی کی بہن بھی حرام ہے لیکن یہ تحریم وقتی ہے، اگر بیوی زندہ ہو اور اس کے نکاح میں ہو،یعنی  بیک وقت دو بہنوں کو نکاح میں رکھنا ۔

(2)زنا سے حرمت مصاہرت:

امام شافعی اور امام مالک کے نزدیک زنا سے حرمت مصاہرت نہیں ہوتی (یعنی زنا کرنے والی عورت کی ماں یا بیٹی سے نکاح حرام نہیں ہوجاتا) امام ابو حنیفہ اور امام احمد حنبل کے نزدیک زناحرمت مصاہرت کی موجب ہے امام مالک کا بھی ایک قول اسی طرح مروی ہے امام احمد نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر کوئی مرد کسی عورت یا مرد سے لواطت کرے تو اس مفعول مرد و عورت کی ماں اور بیٹی سے اس فاعل کا نکاح نہیں ہو سکتا، صحیح یہ ہے کہ حلال جماع پر زناء کو قیاس کیا جائے۔

(3)چھونے سے حرمت مصاہرت:

اگر کسی مرد نے کسی عورت کو اور کسی عورت نے کسی مرد کو شہوت کے ساتھ چھو لیا تو اس چھونے کا حکم جماع کی طرح ہے امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس سے حرمت مصاہرت ہوجاتی ہے،  اس طرح اگر مرد نے عورت کی اندرونی شرمگاہ کو یا عورت نے مرد کی شرمگاہ کو شہوت سے دیکھا تو اس سے بھی حرمت مصاہرت ہوجاتی ہے، باقی تینوں اماموں کے نزدیک چھونے اور دیکھنے سے حرمت مصاہرت نہیں ہوتی ،امام ابو حنیفہ کے قول کی وجہ یہ ہے کہ چھونا اور دیکھنا جماع کے داعی ہیں لہٰذا احتیاط کے مقام میں ان کو جماع کے قائم مقام قرار دیا جائے گا، لیکن انزال کے بعد جماع کا مقتضی ہی ختم ہوجاتا ہے اس لیے انزال کے بعد حرمت مصاہرت کا حکم نہ ہوگا، شہوت کے ساتھ چھونے سے مراد یہ ہے کہ آلہ میں انتشار پیدا ہو جائے یا  انتشار زیادہ ہو جائے۔

مزید دیکھیے:

کیا موجودہ حالات کے پیشِ نظر حرمتِ مصاہرت میں غیر کے مذہب پر فتویٰ دینا جائز ہے؟

حرمتِ مصاہرت میں معاشرے کی ضرورت کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دینا (تفصیلی فتویٰ)

حرمت مصاہرت کے حکم کی علت

حرمتِ مصاہرت کے مسئلہ میں مذہبِ غیر پر فتویٰ کیوں نہیں دیا جاتا؟

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

"{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا} [النساء: 22]

         ترجمہ: اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو، مگر جو بات گزرگئی (گزرگئی) بے شک یہ (عقلاً بھی) بڑی بےحیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے۔ اور (شرعاً بھی) بہت برا طریقہ ہے۔ (بیان القرآن)"

حدیث شریف میں ہے:

"عن حجاج، عن أبي هانئ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من نظر إلى فرج امرأة، لم تحل له أمها، ولا ابنتها". 

(کتاب النکاح،  باب الرجل يقع على أم امرأته أو ابنة امرأته ما حال امرأته، ج:3، ص:480،  ط: مکتبة الرشد، ریاض)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"فمن زنى بامرأة حرمت عليه أمها وإن علت وابنتها وإن سفلت، وكذا تحرم المزني بها على آباء الزاني وأجداده وإن علوا وأبنائه وإن سفلوا، كذا في فتح القدير."

(کتا ب النکاح، القسم الثاني المحرمات بالصهریة ج:1، ص:274،ط: دارالفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تثبت هذه الحرمة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل والنظر إلى الفرج بشهوة، كذا في الذخيرة. ثم المس إنما يوجب حرمة المصاهرة إذا لم يكن بينهما ثوب، أما إذا كان بينهما ثوب فإن كان صفيقا لا يجد الماس حرارة الممسوس لا تثبت حرمة المصاهرة. ولو مس شعرها بشهوة إن مس ما اتصل برأسها تثبت وإن مس ما استرسل لا يثبت. والشهوة تعتبر عند المس والنظر حتى لو وجدا بغير شهوة ثم اشتهى بعد الترك لا تتعلق به الحرمة. وحد الشهوة في الرجل أن تنتشر آلته أو تزداد انتشارا إن كانت منتشرة، كذا في التبيين. وهو الصحيح، كذا في جواهر الأخلاطي. وبه يفتى، ... هذا الحد إذا كان شابا قادرا على الجماع فإن كان شيخا أو عنينا فحد الشهوة أن يتحرك قلبه بالاشتهاء إن لم يكن متحركا قبل ذلك ويزداد الاشتهاء إن كان متحركا، كذا في المحيط. وحد الشهوة في النساء والمجبوب هو الاشتهاء بالقلب والتلذذ به إن لم يكن وإن كان فازدياده، كذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم. ووجود الشهوة من أحدهما يكفي وشرطه أن لا ينزل حتى لو أنزل عند المس أو النظر لم تثبت به حرمة المصاهرة. ويشترط أن تكون المرأة مشتهاة، كذا في التبيين. والفتوى على أن بنت تسع محل الشهوة لا ما دونها."

(كتاب النكاح،الباب الثالث في بيان المحرمات،القسم الثاني المحرمات بالصهرية،ج:1،ص:275، ط:رشیدیة)

       فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: مصاهرةً) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن."

 (کتاب النکاح،فصل في المحرمات،ج:3،ص:28،ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200335

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں