بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمتِ مصاہرت کے مسئلہ میں مذہبِ غیر پر فتویٰ کیوں نہیں دیا جاتا؟


سوال

 مجھے آپ سے کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں جو کہ آج کے پرہجان و پرفتن دور کے سبب ذہن کو پریشان کیے ہوئے ہیں ،  محترم !   حرمتِ مصاہرت کے ثبوت کے لیے اسبابِ وطی کے حجت ہونے کے دلائل قرآن کریم و احادیث مبارکہ سے بیان کیجئے کیوں کہ اسباب وطی کے ہونے پر بھی حرمت مصاہرت کا حکم لگایا جاتا ہے ،  آج کل کا جو دور ہے اس میں شیطان اور نفس انسان کو مغلوب کیے ہوئے ہیں ، اچھا دین دار شخص بھی کبھی کبھی شکار ہوجاتا ہے ، فقہ حنفی میں ضرورت یا اندیشۂ فساد کے پیشِ نظر غیرِ مذہب پر فتویٰ دیاجاتا ہے تو اس معاملےمیں  کیوں سہولت نہیں دی جاتی؟عموماًً  کہا یہ جاتا ہے کہ سہولت سے فتنے کا دروازہ کھل جائے گا، بےراہ روی پھیل جائے گی ، تو سوال یہ پیدا ہوتا کہ بے راہ روی تو ابھی بھی پھیلی ہوئی ہے ، جن لوگوں کے اندر شرم و حیا نہیں یا جو دین کے حکم کو اہمیت نہیں دیتے ان کو تو کسی سہولت یا قید کی ضرورت ہی نہیں ہے مگر جو لوگ دین پر تھوڑا یا بہت عمل کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں یا انہیں تھوڑا بہت دین کا احساس ہوتا ہے تو وہ انتہائی ذہنی خلفشار کا شکار ہوجاتے ہیں، وہمی بن جاتے ہیں، تو علمائے کرام ان لوگوں کے لیے اس معاملے میں دین میں اگر کوئی سہولت نکل سکتی ہو تو کیوں نہیں نکالتے ، دیکھئےبسببِ زنا حرمت مصاہرت قائم ہونے پر ائمہ اربعہ متفق ہیں، مگر شہوت سے ہاتھ پکڑنے سے یا چھونے سے وطی کا حکم یا زنا کا حکم کیوں لگایا جاتا ہے، یہ دونوں کام بھی انتہائی قبیح اور غلیظ فعل ہیں مگر بشہوت جسم کو چھونے والا اور مکمل طریقے سے وطی کرنے والا برابر کیسے ہو سکتے ہیں ، کیونکہ انسان پر کمزور لمحہ آسکتا ہے شہوت سے مغلوب ہو کر وہ ہاتھ پکڑ سکتا ہے مگر اس کو روکا بھی جاسکتا ہے جبکہ دخول کے لیے تو پورا عمل کرنا پڑتا ہے ،  یہ عمل یا تو شادی کے بعد یا زنا کرتے ہوئے جماع کے ذریعے ہوتا ہے ،  اگر کوئی داماد اپنی ساس کو سلام کرتے وقت یا چھوتے وقت شیطان کا شکار ہوگیا اور اسے شہوت پیدا ہوگئی تو اس میں اس کی بیوی بچوں کا کیا قصور ہے وہ کیوں سزا پائیں ؟ کیونکہ دین میں تو کسی پر ظلم نہیں ، جب کہ یہ تو ایک ایسا عمل ہے کہ جو فوری دل میں پیدا ہوتا ہے شہوت تو کبھی بھی دل میں پیدا ہوسکتی ہے اس کو انجام دینے کیلئے کوئی محنت نہیں کرنی پڑتی، اگر کوئی زنا کی نیت سے ہاتھ پکڑے یا جسم کو چھوئے تو کیا اس پر حد لگے گی ؟ ممکن ہے وہ جماع سے پہلے توبہ کرلے،  لہذا حضرت اس معاملے میں رہنمائی فرمائیں جو کہ آج کل کے دور میں اشد ضروری ہے ، اسلام میں تو لوگوں کو آسانی دینے کا کہا گیا ہے يَسِّرُوا وَلاَ تُعَسِّرُوا، وَبَشِّرُوا وَلاَ تُنَفِّرُوا»، ہماری نوجوان نسل ویسے ہی دین سے دور ہورہی ہے اور ان معاملات سے متنفر ہوکر وہ علمائے کرام سے بدظن ہوسکتی ہے یا گمراہ ہوسکتی ہے جو کہ زیادہ بڑا خطرہ اور نقصان ہے ۔

جواب

 حرمتِ مصاہرت  جس طرح نکاح سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زنا سے بھی ثابت ہوجاتی ہے،یہی احناف ،  حنابلہ،اور ایک روایت کے مطابق امام مالک  کا مسلک ہے اور  احناف  کے نزدیک شرائطِ معتبرہ کے ساتھ دواعی زنا( شہوت کے ساتھ چھونے اور دیکھنے)  سے بھی حرمتِ مصاہرت  ثابت ہوجاتی ہے، یہی مسلک بہت سے  صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین  اور کبارِ تابعین رحمہم اللہ   کا ہے،   اور دلائلِ نقلیہ اور عقلیہ سے مؤید ومبرہن اور نہایت  ہی  احوط ہے، اور  حرمتِ مصاہرت  ثابت ہونے  کے لیے دواعی  زنا کی جو شرائط ہیں وہ شرائط بھی مطلق نہیں ہیں بلکہ ہر ایک کی  قیودات ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

1۔۔     نکاحِ صحیح یا نکاحِ فاسد و باطل کے  بعد ہم بستری سے  بالاتفاق حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجاتی ہے  ،اس کے لیے  کچھ شرائط ہیں:

  1. وہ عورت جس سے صحبت کی گئی ہو وہ زندہ ہو۔
  2. موطوء ہ  محلِ شہوت ہو یا محلِ شہوت رہی ہو، محلِ شہوت کا مطلب یہ ہے کہ  عورت ہم بستری کے قابل  ہو اگرچہ وہ بالغ نہ ہوئی ہو،  اس کی عمر کی تحدید کے بارے میں راجح قول یہی ہے کہ  اس کی عمر  کم ازکم نو(9) سال ہو، اور بوڑھی عورتیں  بھی اس میں داخل ہیں۔
  3. مرد  بھی بالغ ہو یا کم ازکم مراہق ہو،راجح قول کے مطابق کم ازکم اس کی عمر بارہ (12) سال ہو۔
  4. وطی محلِ حرث میں ہو یعنی عورت  کی اگلی شرم گاہ میں ہو۔

2۔۔    مس  یعنی چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:

1)        مس بغیر حائل کے ہو یعنی درمیان میں کوئی کپڑا وغیرہ نہ ہو، یا  درمیان میں حائل اس قدر باریک ہو   کہ اس سے جسم کی حرارت پہنچتی ہو۔ وہ بال جو سر سے نیچے لٹکے ہوئے ہوئے ہیں ان کو چھونے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، بلکہ صرف ان بالوں کو چھونے سے حرمت ثابت ہوگی جو سر سے ملے ہوئے ہیں ۔

2)      چھوتے وقت جانبین میں یا کسی ایک میں شہوت  پیدا ہو، مرد کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ   اس کے آلہ تناسل میں انتشار پیدا ہوجائے، اور اگر آلہ تناسل پہلے سے منتشر ہو تو اس میں اضافہ ہوجائے، اور  بیمار  اور بوڑھے  مرد جن کو انتشار نہیں ہوتا اور عورتوں کے لیے شہوت کا معیار یہ ہے کہ  دل  میں  ہیجان  کی کیفیت پیدا ہو اور دل کو لذت حاصل ہو،اور دل کا ہیجان پہلے سے ہوتو اس میں اضافہ ہوجائے۔

3)      شہوت چھونے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر چھوتے وقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

4)      شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو، اگر انزال ہوگیا تو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

5)      عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔

6)      اگر چھونے والی عورت ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرے  یا چھونے والا مرد ہے اور وہ شہوت کا دعوی کرےتو شوہر کو  اس خبر کے سچے ہونے کا غالب گمان ہو، اس لیے اس دعوی سے شوہر کا حق باطل  ہوتاہے ،اس لیے  صرف دعوی کافی نہیں، بلکہ شوہر کو ظن غالب  حاصل ہونا  یا  شرعی گواہوں کا ہونا ضروری ہے۔

7)      جس کو چھوا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔

3۔۔    نظر  یعنی دیکھنےسے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط ہیں:

  1. عورت کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ کو دیکھا ہو، جسے ”فرج داخل“ اور اردو میں ”اندامِ نہانی“ سے بھی تعبیر کرتے ہیں، اندرونی شرم گاہ کے علاوہ بدن کے کسی اور حصہ کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوتی، اور اگر دیکھنے والی عورت ہو تو  مرد کے  مخصوص عضو (آلہ تناسل) کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی، اس کے علاوہ جسم کے کسی اور حصہ کو دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  2. شہوت دیکھنے کے ساتھ ملی ہوئی ہو ،  اگر دیکھتےوقت شہوت پیدا نہ ہو، پھر بعد میں شہوت پیدا ہوتو اس کا اعتبار نہیں ہے،اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔
  3. شہوت صرف دیکھنے والے میں ضروری ہے، جس کی طرف دیکھا ہے اس کی شہوت کا اعتبار نہیں ہے۔
  4. شہوت تھمنے سے پہلے انزال نہ ہوگیا ہو۔
  5. عورت کی عمر کم از کم نو سال اور مرد کی عمر کم ازکم بارہ سال ہو۔
  6. جس کو دیکھا جارہا ہو وہ زندہ ہو۔
  7. بعینہ شرم گاہ کے اندرونی حصہ کو دیکھا ہو، اگر اس کا عکس پانی میں یا آئینہ میں دیکھاتو حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

ایک اور اہم شرط  چھونے اور دیکھنے سے حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے مشترک  یہ  ہے کہ  شہوت اسی  کے لیے پیدا ہوئی ہو یعنی شہوت کا ہدف وہی مرد یا عورت ہو، اگر شہوت پہلے سے تھی اور اسی حالت میں اس نے صنفِ مخالف کو ہاتھ لگایا یا اس کی شرم گاہ کو دیکھا  اور اس سے شہوت میں کوئی اضافہ نہیں  ہوا تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

حاصل یہ ہے کہ حرمتِ مصاہرت ثابت ہونے کے لیے حنفیہ کے نزدیک مندرجہ بالا شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، اگر یہ شرطیں نہیں  پائی جائیں گی  تو  حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی۔

         اب اگر ان شرائط پر غور کیا جائے تو  یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ  احناف حرمتِ  مصاہرت کے باب میں زیادہ  محتاط ہیں؛ تاکہ فتنہ وفساد برپا نہ ہو اور معاشرہ پاک وصاف ہو، عام طور پر روز مرہ کے جن مسائل کا حوالہ دے کر مذہبِ حنفی سے عدول کرنے کا کہا جاتا ہے   تو اکثر و بیشتر    ان میں یہ تمام  شرائط پوری نہیں ہوتیں، اور  جہاں حرمتِ مصاہرت کی شرائط پوری ہوجاتی ہیں  تویہ عام طور پر  وہاں  ہوتا ہے  جہاں  مرد وزن کا اختلاط اور انتہائی درجہ کا بے تکلفانہ ماحول ہو، اور ایسی مغربی تہذیب سے متاثرہ افراد کی خود ساختہ ضرورت  کی شرعاً  کوئی حیثیت بھی نہیں، چہ جائے کہ اسے  ضرورتِ شدیدہ یا اضطرار کا درجہ دیا جائے اور اس کے لیے رخصتیں تلاش کی جائیں۔

جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ شہوت کسی وقت بھی پیدا ہوسکتی ہے تو اس بارے میں بھی شرائط سے واضح ہورہا ہے کہ یہ سببِ مطلق نہیں ہے بلکہ شرائط کے ساتھ معتبر ہے، اور ان شرائط کے ساتھ اس عمل کا صدور کسی انسان کے اختیاری عمل کی وجہ سے ہوسکتا ہے، نیز شریعت نے زنا کی حد کے لیے بھی بہت کڑی شرائط رکھی ہیں،  اور  صرف زنا ثابت  ہونے اور اس کے گواہ ملنے سے بھی حد جاری نہیں ہوتی بلکہ زنا کی گواہی کی تعداد او رمخصوص کیفیت میں اس کے گواہ  مل جائیں اور پھر اس معاملے میں کوئی معمولی شبہ بھی باقی نہ رہے تو پھرحد جاری ہوتی ہے، اس لیے  محض دواعی زنا   کے ثبوت  کی وجہ سے  حدِ زنا  جاری نہیں ہوگی۔ 

اسی طرح  اس بات کو وجہ بتانا کہ اگر داماد ساس کو سلام کرے تو اس صورت میں بھی شرائط ملحوظ ہوں کہ  ایک تو یہ  کہ وہ مس بلا حائل ہو،  دوسری بات یہ کہ اسی وقت شہوت پیدا ہوئی ہو ، بعد کی شہوت کا اعتبار نہیں ہے، اور ایک یہ کہ شہوت کا ہدف وہی ہو،  اگر پہلے سے شہوت موجود ہو اس دوران ہاتھ لگایا  اور شہوت میں  مزید اضافہ نہ ہو تب بھی حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوگی، اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ عمومی طور پر غلطی سے یہ واقعہ ہونے میں یہ سب شرائط پایا جانا ایک مشکل امر ہے، اور جہاں یہ سب پایا جائے وہ اکا دکا واقعات ہیں جنہیں اجتماعی ضرورت کا درجہ نہیں دیا جاسکتا، اسی طرح باقی واقعات کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے۔

         خلاصہ بحث یہ ہے کہ حرمتِ مصاہرت کے باب میں مذہبِ غیر پر فتوی دینا جائز نہیں ہے، خواہ کسی بھی سبب سے حرمت ثابت ہو، اور  نکاح سے پہلے حرمت ثابت ہویا  نکاح کے بعد ہو،  بلکہ اس کا حل یہ ہے کہ علماءِ کرام ومفتیانِ کرام عوام الناس کے سامنے اس مسئلہ کو اجاگر کریں  اور انہیں اسلامی تہذیب سے آشنا کریں، اور   اس بے حیائی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خرابیوں سے آگاہ کریں؛ تاکہ معاشرہ ان برائیوں سے پاک صاف ہو۔ اور ہمارے دارالافتاء سے اس کے متعلق اسی قسم کے سوالات پر مشتمل ایک تفصیلی فتویٰ  بھی جاری ہوچکا ہے اور ہماری ویب سائٹ پر موجود ہے، مزید تفصیل کے لیے  اس کا لنک ملاحظہ ہوں:

حرمتِ مصاہرت میں معاشرے کی ضرورت کی وجہ سے مذہب غیر پر فتوی دینا (تفصیلی فتویٰ)

الفقہ علی المذاهب الأربعہ میں ہے:

"الحنفية - قالوا: إن حرمة المصاهرة تثبت بواحد من الأمور الآتية وهي:- 1 - العقد   الصحيح، - 2 - الوطء الحلال، - 3 - الوطء بالنكاح الفاسد، وكذا الوطء بشبهة.4 - اللمس بينهما بشهوة.- 5 - النظر إلى فرج المرأہ بشهوة، ولا يثبت بالنظر إلى سائر الأعضاء، أو الشعر ولو بشهوة.- 6 - وتثبت الحرمة بالزنا، أو اللمس، أو النظر بشهوة بدون نكاح، والمراد بالشهوة هو، يشتهي بقلبه، ويعرف ذلك بإقراره، وقيل: يصحب ذلك تحرك الآلة وانتشارها ۔۔۔۔۔۔ الحنابلة - قالوا: إن الوطء الحرام كالوطء الحلال كلاهما تثبت به حرمة المصاهرة، فمن زنى بامرأة حرمت على أبويه، وحرمت عليه أمها وبناتها، ولو وطئ أم امرأته حرمت عليه ابنتها، ووجب مفارقتا، وكذلك لو وطئ بنت زوجته حرمت عليه أمها (وهي زوجته) وقالوا: بحرمة نكاح الرجل ابنته من الزنا مثل الحنفية". 

(5/ 101،   کتاب الحدود ، التحریم بالمصاہرۃ، ط: مکتبۃ الصفا)

المبسوط للسرخسی  میں ہے:

"  فنقول: كما ثبتت حرمة المصاهرة بالوطء تثبت بالمس والتقبيل عن شهوة عندنا سواء كان في الملك أو في غير الملك، ... ولكنا نستدل بآثار الصحابة - رضي الله عنهم -، فقد روي عن ابن عمر - رضي الله عنه - أنه قال: إذا جامع الرجل المرأة أو قبلها بشهوة أو لمسها بشهوة أو نظر إلى فرجها بشهوة حرمت على أبيه وابنه وحرمت عليه أمها وابنتها. وعن مسروق - رحمه الله تعالى - قال: بيعوا جاريتي هذه أما إني لم أصب منها ما يحرمها على ولدي من المس والقبلة، ولأن المس والتقبيل سبب يتوصل به إلى الوطء فإنه من دواعيه ومقدماته فيقام مقامه في إثبات الحرمة كما أن النكاح الذي هو سبب الوطء شرعا يقام مقامه في إثبات الحرمة إلا فيما استثناه الشرع وهي الربيبة، وهذا لأن الحرمة تنبني على الاحتياط فيقام السبب الداعي فيه مقام الوطء احتياطا، وإن لم يثبت به سائر الأحكام كما تقام شبهة البعضية بسبب الرضاع مقام حقيقة البعضية في إثبات الحرمة دون سائر الأحكام، ولو نظر إلى فرجها بشهوة تثبت به الحرمة عندنا استحسانا، وفي القياس لا تثبت، وهو قول ابن أبي ليلى والشافعي - رحمهما الله تعالى - لأن النظر كالتفكر؛ إذ هو غير متصل بها. ألا ترى أنه لا يفسد به الصوم، وإن اتصل به الإنزال، ولأن النظر لو كان موجبا للحرمة لاستوى فيه النظر إلى الفرج وغيره كالمس عن شهوة، ولكنا تركنا القياس بحديث أم هانئ - رضي الله تعالى عنها - أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: «من نظر إلى فرج امرأة بشهوة حرمت عليه أمها وابنتها» وعن عمر - رضي الله تعالى عنه - أنه جرد جارية، ثم نظر إليها، ثم استوهبها منه بعض بنيه، فقال: أما إنها لا تحل لك، وفي الحديث «ملعون من نظر إلى فرج امرأة وابنتها»، ثم النظر إلى الفرج بشهوة نوع استمتاع؛ لأن النظر إلى المحل إما لجمال المحل أو للاستمتاع، وليس في ذلك الموضع جمال ليكون النظر لمعنى الجمال فعرفنا أنه نوع استمتاع كالمس بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ولأن النظر إلى الفرج لا يحل إلا في الملك بمنزلة المس عن شهوة بخلاف النظر إلى سائر الأعضاء، ثم معنى الشهوة المعتبرة في المس والنظر أن تنتشر به الآلة أو يزداد انتشارها، فأما مجرد الاشتهاء بالقلب غير معتبر.ألا ترى أن هذا القدر يكون من الشيخ الكبير الذي لا شهوة له، والنظر إلى الفرج الذي تتعلق به الحرمة هو النظر إلى الفرج الداخل دون الخارج، وإنما يكون ذلك إذا كانت متكئة أما إذا كانت قاعدة مستوية أو قائمة لا تثبت الحرمة بالنظر".  

(المبسوط للسرخسي (4/ 204) کتاب النکاح، ط: دارالمعرفة، بیروت)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: والزنا واللمس والنظر بشهوة يوجب حرمة المصاهرة) وقال الشافعي الزنا لا يوجب حرمة المصاهرة؛ لأنها نعمة فلا تنال بالمحظور، ولنا: أن الوطء سبب الجزئية بواسطة الولد حتى يضاف إلى كل واحد منهما كملا فيصير أصولها وفروعها كأصوله وفروعه، وكذلك على العكس والاستمتاع بالجزء حرام إلا في موضع الضرورة وهي الموطوءة والوطء محرم من حيث إنه سبب الولد لا من حيث إنه زنا واللمس والنظر سبب داع إلى الوطء فيقام مقامه في موضع الاحتياط كذا في الهداية ولم يستدل بقوله تعالى {ولا تنكحوا ما نكح آباؤكم} [النساء: 22] كما فعل الشارحون لما قدمنا أنه لا يصلح الاستدلال به، أراد بالزنا الوطء الحرام، وإنما قيد به؛ لأنه محل الخلاف، أما لو وطئ المنكوحة نكاحا فاسدا أو المشتراة فاسدا أو الجارية المشتركة أو المكاتبة أو المظاهرة منها أو الأمة المجوسية أو زوجته الحائض أو النفساء أو كان محرما أو صائما فإنه يثبت حرمة المصاهرة اتفاقا وبه علم أن الاعتبار لعين الوطء لا لكونه حلالا أو حراما وليفيد أنه لا بد أن تكون المرأة حية؛ لأنه لو وطئ الميتة فإنه لا تثبت حرمة المصاهرة كما في الخانية".

(3/ 105، کتاب النکاح،فصل فی المحرمات، ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) حرم المصاهرة (بنت زوجته الموطوءة وأم زوجته) وجداتها مطلقاً بمجرد العقد الصحيح (وإن لم توطأ) الزوجة.

 (قوله: الصحيح) احتراز عن النكاح الفاسد، فإنه لا يوجب بمجرده حرمة المصاهرة بل بالوطء أو ما يقوم مقامه من المس بشهوة والنظر بشهوة؛ لأن الإضافة لا تثبت إلا بالعقد الصحيح بحر".

(3/ 30، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"(و) حرم أيضاً بالصهرية (أصل مزنيته) أراد بالزنا في الوطء الحرام (و) أصل (ممسوسته بشهوة) ولو لشعر على الرأس بحائل لايمنع الحرارة.

 (وأصل ماسته وناظرة إلى ذكره والمنظور إلى فرجها) المدور (الداخل) ولو نظره من زجاج أو ماء هي فيه (وفروعهن) مطلقاً والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قلبه أو زيادته وفي الجوهرة: لا يشترط في النظر لفرج تحريك آلته به يفتى هذا إذا لم ينزل فلو أنزل مع مس أو نظر فلا حرمة به يفتي ابن كمال وغيره.

 (قوله: بشهوة) أي ولو من أحدهما كما سيأتي (قوله: ولو لشعر على الرأس) خرج

 به المسترسل، وظاهر ما في الخانية ترجيح أن مس الشعر غير محرم وجزم في المحيط بخلافه ورجحه في البحر، وفصل في الخلاصة فخص التحريم بما على الرأس دون المسترسل وجزم به في الجوهرة وجعله في النهر محمل القولين وهو ظاهر فلذا جزم به في الشارح (قوله: بحائل لا يمنع الحرارة) أي ولو بحائل إلخ، فلو كان مانعا لا تثبت الحرمة، كذا في أكثر الكتب، ۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: وأصل ماسته) أي بشهوة قال في الفتح: وثبوت الحرمة بلمسها مشروط بأن يصدقها، ويقع في أكبر رأيه صدقها وعلى هذا ينبغي أن يقال في مسه إياها لا تحرم على أبيه وابنه إلا أن يصدقاه أو يغلب على ظنهما صدقه، ثم رأيت عن أبي يوسف ما يفيد ذلك. اهـ. (قوله: وناظرة) أي بشهوة (قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج، وحينئذ فإطلاق الكنز في محل التقييد بحر. (قوله: المدور الداخل) اختاره في الهداية وصححه في المحيط والذخيرة: وفي الخانية وعليه الفتوى وفي الفتح، وهو ظاهر الرواية لأن هذا حكم تعلق بالفرج، والداخل فرج من كل وجه، والخارج فرج من وجه والاحتراز عن الخارج متعذر، فسقط اعتباره، ولا يتحقق ذلك إلا إذا كانت متكئة بحر فلو كانت قائمة أو جالسة غير مستندة لا تثبت الحرمة إسماعيل وقيل: تثبت بالنظر إلى منابت الشعر وقيل إلى الشق وصححه في الخلاصة بحر (قوله: أو ماء هي فيه) احتراز عما إذا كانت فوق الماء فرآه من الماء كما يأتي (قوله: وفروعهن) بالرفع عطفا على أصل مزنيته، وفيه تغليب المؤنث على الذكر بالنسبة إلى قوله وناظرة إلى ذكره (قوله: مطلقا) يرجع إلى الأصول والفروع أي، وإن علون، وإن سفلن ط (قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لا تحرم عليه. اهـ.وكذلك في النظر كما في البحر، فلو اشتهى بعدما غض بصره لا تحرم.قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها لما في الفيض لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة فتمنى جارية مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا. (قوله: وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجودا قبلهما."

(كتاب النكاح، فصل في المحرمات، ج: 3، ص: 32، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144408101787

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں