بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حرمت مصاہرت کے حکم کی علت


سوال

 ایک بیٹا اپنی سگی یا سوتیلی ماں کو غلط نیت سے ہاتھ لگاۓ تو اس کے ماں باپ ایک دوسرے پر ہمیشہ کے لئے  حرام ہوجاتے ہیں ، تو گناہ بیٹے نے کیا اور اس کی سزا ماں باپ کو ملی یہ کیوں ؟ اور شریعت میں اس کی کوئی  مثال دیں کہ گناہ ایک نے کیا ہو اور سزا کسی اور کو ملی ہو ۔

جواب

واضح رہے کہ حرمتِ مصاہرت کا حکم انتہائی احتیاط پر مبنی ہے،جس میں سبب کو  اصل کے قائم مقام بنا کر حکم لگایا گیا ہے ،حرمتِ مصاہرت ایک حکم شرعی ہے ،اگر لوگوں میں اس طرح کا دستور جاری ہوجائے کہ ماں کو اپنی بیٹی کے شوہر کی طرف اور باپ کو اپنے بیٹے کی بیوی کی طرف اور بیویوں کو اپنے شوہر کے بیٹوں کی طرف جنسی رغبت ہو جس کی تکمیل نکاح کے حلال ہونے کی صورت میں ممکن ہے تواپنی خواہش کے حصول  کی غرض سے اپنے ان قریبی رشتہ داروں کو راستہ سے ہٹاکران کی بیویوں سےنکاح کرنے کی شیطانی کوشش لوگوں میں جاری ہو جائے گی ،لہذا اس حکمت کے پیشِ نظر شریعت نے بالکلیہ ایسے رشتہ کو ہمیشہ کےلیے حرام قرار دے دیاجس سےخاندانوں میں  فساد برپا ہو ،نیز جب کسی مسئلہ میں حرمت وحلت جمع ہوجائیں تو وہاں احتیاط کے پیش نظر  حرمت کو ترجیح دی جاتی ہے،اورا س بات کی مثال کہ ایک کی غلطی کی وجہ سے دوسرے کو بھی اس کی سزا میں شریک کیا گیا ہو ،جیسا کہ  قتلِ عمد کے علاوہ قتل کی باقی اقسام میں قاتل کے ساتھ اس کی عاقلہ (اہل دیوان/خاندان والے ) بھی  اس دیت  میں شریک ہوتےہیں ،جب کہ فعل صرف قاتل کا ہے ،اس وجہ سے کہ اس شخص کواپنی قوم اور اہل دیوان کی حمایت اور قوت  نے ہی نفسِ محترم   کے قتل پر ابھارا ہے ،جن پر لازم تھا کہ وہ اس شخص کو اس فعل کے ارتکاب سے روکتےاور اس کی نگرانی کرتے،اسی طرح حرمتِ مصاہرت کے حکم میں بھی  والدین کی اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی کرنے کی وجہ سے  اولاد کے فعل کی سزا والدین کو دی گئی ۔

         ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

{وَلَا تَنْكِحُوا مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ مِنَ النِّسَاءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَمَقْتًا وَسَاءَ سَبِيلًا} [النساء: 22]

         ترجمہ: اور تم ان عورتوں سے نکاح مت کرو جن سے تمہارے باپ (دادا یا نانا) نے نکاح کیا ہو، مگر جو بات گزرگئی (گزرگئی) بے شک یہ (عقلاً بھی) بڑی بےحیائی ہے اور نہایت نفرت کی بات ہے۔ اور (شرعاً بھی) بہت برا طریقہ ہے۔ (بیان القرآن)

       فتاوی شامی میں ہے:

" (قوله: مصاهرةً) كفروع نسائه المدخول بهن، وإن نزلن، وأمهات الزوجات وجداتهن بعقد صحيح، وإن علون، وإن لم يدخل بالزوجات وتحرم موطوءات آبائه وأجداده، وإن علوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح، وموطوءات أبنائه وآباء أولاده، وإن سفلوا ولو بزنى والمعقودات لهم عليهن بعقد صحيح فتح، وكذا المقبلات أو الملموسات بشهوة لأصوله أو فروعه أو من قبل أو لمس أصولهن أو فروعهن." 

 ( کتاب النکاح، فصل فی المحرمات،28/3، ط: سعید)

ہدایہ میں ہے:

"وإنما خصوا بالضم لأنه إنما قصر لقوة فيه وتلك بأنصاره وهم العاقلة فكانوا هم المقصرين في تركهم مراقبته فخصوا به."

(کتاب المعاقل،506/4،ط:دار احیاء التراث بیروت)

اسی طرح حکیم الامت حضرت  مولانا اشرف علی تھانوی  رحمہ اللہ کی کتاب" احکامِ اسلام عقل کی نظر میں "(ص:163،ط:توصیف پبلی کیشنز) میں مذکور ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100087

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں