بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی ہسپتال یا فلاحی ادارے کو زکات دینے کا حکم


سوال

کیا  کسی ہسپتال یا  فلاحی ادارے میں زکات کی رقم دی جا سکتی ہے؟

جواب

زکات ادا ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ  اسے کسی مستحقِ زکات شخص کو بغیر عوض کے مالک بناکر دیا جائے،  لہٰذا جس فلاحی ادارے  یا ہسپتال  کی انتظامیہ اہلِ سنت والجماعت میں سے ہو اور کسی مسلمان،غیر ہاشمی (یعنی سید یا عباسی وغیرہ کے علاوہ)، مستحقِ زکات  کو مالک بناکر زکات  كي رقم ديتے هوں ،اس ادارے / ہسپتال کو زکات دینا درست ہے، اور جو ادارہ / ہسپتال اس کا اہتمام نہ کرتاہو  اسے زکات دینا درست نہیں ہے اور جہاں شبہ ہو وہاں زکات دینے کی بجائےخود مستحق تلاش کرکےاسے  یا کسی مستند دینی ادارے کو زکات  دی جائے،مذکورہ ضابطے کی روشنی میں اداروں کا نظام دیکھ کر زکات دینے کے جواز یا عدمِ جواز کا فیصلہ کیا جاسکتاہے۔

زکات کے مستحق سے مراد وہ شخص ہے:  جس کی ملکیت میں بنیادی ضرورت اور واجب الادا قرض و اخراجات منہا کرنے کے بعد  استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو،  جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت تک پہنچتی ہو۔ فقط واللہ اعلم

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ دیکھیے:

زکاة سے ہسپتال تعمیر کروانا/ زکاۃ کی رقم سے ڈاکٹروں کو تنخواہ دینا

زکوۃ کی رقم سے ہسپتال کو مشنری دینا

رفاہی اداروں / خیراتی ہسپتالوں کو زکاۃ دینا


فتوی نمبر : 144208200935

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں