بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکاة سے ہسپتال تعمیر کروانا/ زکاۃ کی رقم سے ڈاکٹروں کو تنخواہ دینا


سوال

1- ہم زکاۃ سے ہسپتال بنا سکتے ہیں؟ جہاں مفت علاج ہوگا؟

2- کیا ڈاکٹر کو زکاۃ کی مد سےتنخواہ دے سکتے ہیں؛ کیوں کہ ہم اس سے سروس لیں گے مریض اس کو کچھ بھی فیس نہیں دےگا؟

جواب

1- زکاۃ کی ادائیگی کے لیے زکاۃ کی رقم مستحقِ زکاۃ شخص  کو مالکانہ حقوق و تصرف کے ساتھ دینا شرعًا ضروری ہے، لہٰذا زکاۃ کی رقم سے ہسپتال، مسجد، مدرسہ، اسکول وغیرہ کی تعمیر جائز نہیں، خواہ ہسپتال میں مفت علاج کیا جائے یا نہ کیا جائے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وَلَايَجُوزُ أَنْ يَبْنِيَ بِالزَّكَاةِ الْمَسْجِدَ، وَكَذَا الْقَنَاطِرُ وَالسِّقَايَاتُ، وَإِصْلَاحُ الطَّرَقَاتِ، وَكَرْيُ الْأَنْهَارِ وَالْحَجُّ وَالْجِهَادُ وَكُلُّ مَا لَا تَمْلِيكَ فِيهِ، وَلَايَجُوزُ أَنْ يُكَفَّنَ بِهَا مَيِّتٌ، وَلَايُقْضَى بِهَا دَيْنُ الْمَيِّتِ، كَذَا فِي التَّبْيِينِ، وَلَايُشْتَرَى بِهَا عَبْدٌ يُعْتَقُ، وَلَايَدْفَعُ إلَى أَصْلِهِ، وَإِنْ عَلَا، وَفَرْعِهِ، وَإِنْ سَفَلَ، كَذَا فِي الْكَافِي."

(كتاب الزكاة، الْبَابُ السَّابِعُ فِي الْمَصَارِفِ، ١ / ١٨٨، ط: دار الفكر)

2- واضح رہے کہ فلاحی اداروں کے پاس جمع شدہ زکاۃ کی رقم امانت ہوتی ہے، جسے مستحقِ زکاۃ افراد تک مالکانہ حقوق کے ساتھ پہنچانا ان کے ذمہ داران پر شرعًا لازم ہوتا ہے، اور جس طرح زکاۃ کی رقم مستحق شخص کو مالک بناکر دینا ضروری ہے، اسی طرح زکاۃ کی رقم بلاعوض دینا بھی ضروری ہے، لہٰذا ڈاکٹر کو اس کی خدمات کی تنخواہ میں زکاۃ دینا  درست نہیں ہے۔ اس کی بجائے یوں کیا جائے کہ جو مریض واقعتًا زکاۃ کا مستحق ہو تو اسے زکاۃ کی رقم مالک بناکر دے دی جائے، وہ مالک بن جانے کے بعد اس رقم کو ڈاکٹر کی فیس کی مد میں یا ہسپتال سے فراہم کردہ دواؤں کی خریداری کی مد میں ادا  کردے، اس سے حاصل شدہ رقم کو ڈاکٹر کی تنخواہ اور ہسپتال کے دیگر مصارف میں صرف کیا جاسکتاہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

’’ولو قضى دين حي فقير إن قضى بغير أمره لم يجز؛ لأنه لم يوجد التمليك من الفقير؛ لعدم قبضه، وإن كان بأمره يجوز عن الزكاة؛ لوجود التمليك من الفقير؛ لأنه لما أمره به صار وكيلاً عنه في القبض فصار كأن الفقير قبض الصدقة بنفسه وملكه من الغريم‘‘.

(كتاب الزكاة، رکن الزکاۃ، ٢ / ٣٩ ط : سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں