بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پرندوں اور جانوروں کے کاروبار اور ان پر زکوٰۃ کا حکم کیا ہے؟


سوال

 پرندوں اور جانوروں پر زکوٰۃ کا حکم کیا ہے؟

اگر پرندے اور جانور اپنے شوق کی نیت  کے ساتھ ساتھ اس نیت سے رکھے جائیں کے اگر ان کی نسل بڑھی تو ان کو فروخت کر کے نفع حاصل کیا جائے گا اور پالتو جانور جیسے بکری وغیرہ سے دودھ یا گوشت سے نفع حاصل کرنا اور بچوں کو فروخت یا قربانی کے لیے رکھنا، اور پرندوں جیسے مرغی وغیرہ اور ان کے گوشت اور انڈوں سے فائدہ اٹھانا یا فروخت کرنا۔ یا جنگلی جانور یا پرندے کا اوپر دی گئی مثال کی طرح رکھنے پر کیا کیا حکم ہوگا؟

جواب

جو پرندے و دیگر جانور تجارت کی غرض سے خریدے گئے ہوں، سال مکمل ہونے پر ان کی مالیت پر زکوة واجب ہوگی۔

اور جو پرندے یا پالتو جانور شوقیہ  پالے ہوں، ان کو فروخت کرنا مقصود نہ ہو ان کی مالیت پر زکوة  واجب نہ ہوگی، البتہ  شوقیہ پالے گئے پرندوں و دیگر جانوروں کی افزائش نسل کرکے ان کے بچوں کو فروخت کرنا مقصود ہو تو  سال مکمل ہونے پر تجارت کے لیے رکھے گئے پرندوں اور جانوروں کی مالیت پر زکوة واجب ہوگی، اسی طرح  سال کے دوران جو  پرندے و جانور فروخت کر دیے گئے، اور ان سے جو آمدنی ہوئی، اگر کل یا بعض آمدنی سال مکمل ہونے پر محفوظ ہو تو اس کی زکوۃ ادا کرنا بھی لازم ہوگا، بشرطیکہ سائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہو یا اس کی ضروریات سے زائد پونجی ساڑھے باون  تولہ چاندی کی قیمت کے مساوی یا اس سے زائد ہو۔

اور جو جانور قربانی کے لیے پالے ہوں ان پر زکوة واجب نہ ہوگی،  اسی طرح وہ جانور جن  دودھ  حاصل کرنا مقصود ہو ان پر بھی زکوة واجب نہ ہوگی، بشرطیہ کہ گائے یا بھینس کی تعداد تیس سے کم ہو، اور بکریوں کی تعداد چالیس سے کم ہو، اور انہیں مالک خود چارہ دیتا ہو، البتہ اگر دودوھ فروخت کیا جاتا ہو تو اس سے حاصل شدہ آمدن پر  حسبِ تفصیلِ سابق زکوة واجب ہوگی، یعنی اگر دودھ فروخت کرنے کے بعد وہ زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر کل یا بعض محفوظ ہو اور سائل صاحبِ نصاب ہو تو اس رقم پر زکاۃ واجب ہوگی۔

اسی طرح سے مرغی کے انڈے حاصل کرنے  کی نیت سے جو مرغیاں خریدی ہوں  ان پر زکوۃ لازم نہ ہو گی۔ البتہ اگر انڈے فروخت کرکے  نفع کمایا اور کل آمدن یا اس میں سے کچھ رقم سال پورا ہونے پر موجود ہو تو اسے بھی زکوة  کے حساب میں شامل کیا جائے گا۔

اور جن جانوروں یا پرندوں کے خریدتے وقت کوئی نیت نہ ہو، بعد میں بیچنے کی نیت ہوجائے تو صرف نیت سے ان پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی، جب تک کہ انہیں بیچا نہ جائے۔

النتف في الفتاوي میں ہے:

واما زَكَاة الْبَقر فَلَا صَدَقَة فِيهَا حَتَّى تبلغ ثَلَاثِينَ فاذا بلغت ثَلَاثِينَ فَفِيهَا تبيع اَوْ تبيعة الى أَرْبَعِينَ فَفِيهَا مُسِنَّة الى سِتِّينَ فَفِيهَا تبيعان.

وَلَيْسَ فِي الْخمسين شَيْء فِي قَول ابي يُوسُف وَمُحَمّد وَفِي قَول ابي حنيفَة فِيهَا مُسِنَّة وايضا عَنهُ فانه قَالَ اذا بلغ اربعين فَفِيهَا مُسِنَّة وَلَيْسَ فِي الزِّيَادَة شَيْء حَتَّى تبلغ خمسين فاذا بلغت خمسين فَفِيهَا مُسِنَّة وَربع اَوْ ثلث تبيع ثمَّ لَيْسَ فِي الزِّيَادَة شَيْء حَتَّى تبلغ سِتِّينَ فَفِيهَا تبيعان

وايضا عَنهُ قَالَ لَيْسَ فِي الزِّيَادَة على الاربعين شَيْء حَتَّى تبلغ خمسين فاذا بلغت خمسين فَفِيهَا مُسِنَّة وَربع مُسِنَّة أَو ثلث تبيع ثمَّ لَيْسَ فِي الزِّيَادَة على السِّتين شَيْء حَتَّى تبلغ سبعين فَفِيهَا تبيع ومسنة ثمَّ بعد ذَلِك فِي كل اربعين مُسِنَّة وَفِي كل ثَلَاثِينَ تبيع وَهُوَ حِسَاب لَا يَنْقَطِع.

مطلب زَكَاة الشَّاة

واما زَكَاة الشَّاة فَلَيْسَ فِيمَا دون أَرْبَعِينَ شَاة صَدَقَة فاذا بلغت اربعين فَفِيهَا شَاة الى مائَة وَعشْرين فاذا زَادَت وَاحِدَة فَفِيهَا شَاتَان الى مِائَتي شَاة فاذا بلغت احدى وَمِائَتَيْنِ شَاة فَفِيهَا ثَلَاث شِيَاه الى ارْبَعْ مائَة ثمَّ فِي كل مائَة شَاة وَهُوَ حِسَاب لَا يَنْقَطِع."

( كتاب الزكوة، زَكَاة الْبَقر، ١ / ١٧٥ - ١٧٦، ط: دار الفرقان - عمان الأردن)

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

مویشیوں کی زکاۃ کا نصاب

دودھ کے لیے پالی جانے والی بھینسوں پر زکاۃ کا حکم

ڈیری فارم کی زکاۃ کا حکم

قربانی کی نیت سے پالے ہوئے جانوروں میں زکوۃ کا حکم

شتر مرغ پر زکاۃ کا حکم

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں