بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم کھیلنے کا حکم


سوال

گیم( pubge) کے بارے میں علماء کرام کاکیا فتویٰ ہے؟

جواب

کسی بھی   کسی قسم کا کھیل جائز ہونے کے لیے مندرجہ ذیل شرائط کا پایا جانا ضروری ہے، ورنہ وہ کھیل لہو ولعب میں داخل ہو نے کہ وجہ سے شرعاً  ناجائز اور حرام ہوگا:

1۔۔   وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت  ہو مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

ان اصولوں کی روشنی میں  پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی و دیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری  کے لیے کھیلا جاتا ہے، جو لایعنی کام ہے، اور  اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے، نیز  مشاہدہ یہ ہے کہ  جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں؛  لہذا پب جی اور اس جیسے دیگر  گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

لیکن  مطلقًا  پب جی (pubg) گیم کھیلنا کفر نہیں ہے اور نہ ہی مطلقا بپ جی  گیم کھیلنے پر کفر  کا فتوی دیا گیا ہے، بلکہ  پب جی گیم کے متعلق فتوی ہماری ویب سائٹ سے جون کے مہینے میں پبلش ہوا تھا، جن دنوں میں پب جی گیم بنانے والی کمپنی نے اس کی اَپ ڈیٹ میں ایسا نقشہ شامل کیا تھا جس میں مذکورہ خرابی موجود تھی، جو بعد ازاں مسلمانوں کے احتجاج پر ہٹا دیا گیا،  سوال موصول ہونے کے بعد، جواب جاری کرنے سے پہلے ان ہی دنوں میں اس کی حقیقت کو بھی جانچا گیا اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی گئیں، اور اس تحقیق کی روشنی میں شرعی اصول و اَحکام کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے فتویٰ جاری کیا گیا،  تحقیق  کے نتیجے میں بات بھی سامنے آئی کہ  کچھ عرصہ قبل اس گیم کے بنانے والوں نے اس کے sanhok نامی نقشے (map) میں ایک نیا موڈ mysterious jungle mode کے نام سے متعارف کرایا ہے جس میں انرجی حاصل کرنے کے لیے بتوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سر جھکانا پڑتا ہے، جیساکہ ہندؤوں اور بعض دیگر مشرکین کے ہاں بت کی پوجا کا ایک طریقہ ہے، تاہم گیم میں ایسا کرنا لازم نہیں ہے، یعنی پلیئر انرجی حاصل کیے بغیر بھی گیم جاری رکھ سکتا ہے، اگرچہ اس کے بغیر اس کی کارکردگی متاثر ہونے کا قوی امکان ہوتا  ہے۔

ممکن ہے کسی زمانہ میں  اَپ ڈیٹ میں یہ  دوبارہ   شامل ہوجائے، اس لیے اب اس سارے تناظر میں مسئلہ کا حکم یہ ہے:

مطلقًا پب جی گیم کھیلنا  ناجائز ہے، لیکن اس کو کھیلنے والا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا،  خواہ اس نے  سانہاک نقشہ میں کھیلا ہو، اور اگر کسی نے سانہاک نقشے کے جنگل موڈ میں کھیلا ہو لیکن بتوں سے پاور حاصل  نہیں کی ہو  تب بھی وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، البتہ اگر کسی نے عمدًا پاور حاصل کرنے کے  لیے پلئیر کو  بت کے سامنے جھکایا ہو  تو چوں کہ پلئیر درحقیقت  کھیلنے والے کا عکاس اور ترجمان  ہے، اور کھیلنے والا اس کو جس طرح  چلائے وہ اسی طرح چلتا ہے،  اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرسکتا، اور کوئی ایسی خاص ضرورت بھی نہیں ہے کہ پلئیر کو بت کے سامنے جھکایا جائے، اور شریعت نے بعض ایسی چیزیں  جو کفر کی علامات اور خصائص ہیں ان کے کرنے پر مطلقًا کفر کا حکم دیا ہے  اگر چہ ان کا قصد وارادہ نہ ہو، جیسے بتوں کے سامنے سجدہ کرنا، قرآن مجید کو گندگی میں پھینکنا وغیرہ۔ اس  لیے  اس خاص  صورت میں تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔

نیز مذکورہ  نقشے میں بتوں کے سامنے جھکنے کا طریقہ ایک خاص  مذہب کے لوگوں کی پوجا کا  طریقہ ہے اور گیم میں پلئیر جب بت کے سامنے جاتا ہے تو اس وقت انگریزی زبان میں وہاں جو الفاظ نمودار ہوتے ہیں  اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے وہ اس پلئیر کو تعظیم کرنے کا حکم دے رہا ہے اور پاور  ملنے کے بعد جو الفاظ ظاہر ہوتے ہیں وہ بھی شرکیہ ہیں، اس لیے ہر مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بالکلیہ اجتناب کرنا لازم ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاوی ملاحظہ فرمائیں:

پب جی گیم میں شرک کیوں لازم آتا ہے؟

پب جی گیم میں شرکیہ عمل نہیں پایا جاتا تو کفر کا فتوی کیسے دے دیا گیا؟

پب جی گیم سے متعلق فتوی کے بارے میں غلط فہمی کا ازالہ

روح المعانی میں ہے:

’’ولهو الحديث على ما روي عن الحسن كل ما شغلك عن عبادة الله تعالى وذكره من السمر والأضاحيك والخرافات والغناء ونحوها‘‘.

 (تفسیر الآلوسیؒ (11 / 66)، سورۃ لقمان، ط:دار الکتب العلمیہ)              

         تکملۃ فتح الملہم میں ہے:

’’فالضابط في هذا . . . أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، وليس له غرض صحيح  مفيد في المعاش ولا المعاد حرام اور مكروه تحريماً، . . . وما كان فيه غرض  ومصلحة دينية أو دنيوية، فإن ورد النهي  عنه من الكتاب أو السنة . . . كان حراماً أو مكروهاً تحريماً، ... وأما مالم يرد فيه النهي عن الشارع وفيه فائدة ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علي نوعين ، الأول ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه ومفاسده أغلب علي منافعه، وأنه من اشتغل به الهاه عن ذكر الله  وحده وعن الصلاة والمساجد التحق ذلك بالمنهي عنه لاشتراك العلة فكان حراماً أو مكروهاً، والثاني ماليس كذالك  فهو أيضاً إن اشتغل به بنية التلهي والتلاعب فهو مكروه، وإن اشتغل به لتحصيل تلك المنفعة وبنية استجلاب المصلحة فهو مباح،  بل قد ير تقي إلى درجة الاستحباب أو أعظم منه . . . وعلي هذا الأصل فالألعاب التي يقصد بها رياضة الأبدان أو الأذهان جائزة في نفسها مالم يشتمل علي معصية أخري، وما لم يؤد الانهماك فيها إلى الاخلال بواجب الإنسان في دينه و دنياه‘‘. (تکملة فتح الملهم، قبیل کتاب الرؤیا، (4/435) ط:  دارالعلوم کراچی)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:4، ص:222، ط: دار الفكر-بيروت):

"(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجودا حقيقة لكنه زائل حكما لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفا في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقا لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفاف واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة. وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي - صلى الله عليه وسلم - زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق".

الاختيار لتعليل المختار (ج:4، ص:150، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة):

"قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقة الصلاة في جماعة يكون مسلما) لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره".

فقط والله أعلم

 


فتوی نمبر : 144202201147

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں