بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جُمادى الأولى 1446ھ 14 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم سے متعلق فتوی کے بارے میں غلط فہمی کا ازالہ


سوال

 کچھ دنوں سے ہم سن رہے ہیں کہ پب جی گیم کھیلنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں نکاح کی تجدید بھی ضروری ہے، حال آں کہ میں دو سال سے کھیل رہا ہوں، ابھی تک کوئی بت ہمارے سامنے ایسا نہیں آیا جس کو سجدہ کرناپڑتا ہے۔ یہ سب میڈیا والوں کی ایڈیٹنگ ہے  جو ہمارے دین کا مذاق اڑا رہے ہیں، حال آں کہ مولوی حضرات اس سے واقف نہیں ہیں؛ کیوں کہ وہ گیم نہیں جانتے، تو میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ گیم کھیلیں یا گیم کی ویڈیوز وغیرہ دیکھ لیں؛ تاکہ آپ کو پتا چلے اور اس کے بعد فتویٰ پر نظر ثانی کریں؛ کیوں کہ بہت سے علاقوں میں کچھ لوگ اس طرح سمجھتے ہیں کہ گیم کھیلنے والے دائرہ اسلام سے خارج ہیں؛ لہذا آپ اس پر نظر ثانی کریں!

جواب

پب جی گیم کے متعلق فتوی ہماری ویب سائٹ سے جون کے مہینے میں پبلش ہوا تھا، جن دنوں میں پب جی گیم بنانے والی کمپنی نے اس کی اَپ ڈیٹ میں ایسا نقشہ شامل کیا تھا جس میں مذکورہ خرابی موجود تھی، جو بعد ازاں مسلمانوں کے احتجاج پر ہٹا دیا گیا،  سوال موصول ہونے کے بعد، جواب جاری کرنے سے پہلے ان ہی دنوں میں اس کی حقیقت کو بھی جانچا گیا اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کی گئیں، اور اس تحقیق کی روشنی میں شرعی اصول و اَحکام کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے فتویٰ جاری کیا گیا،  تحقیق  کے نتیجے میں بات بھی سامنے آئی کہ  کچھ عرصہ قبل اس گیم کے بنانے والوں نے اس کے sanhok نامی نقشے (map) میں ایک نیا موڈ mysterious jungle mode کے نام سے متعارف کرایا ہے جس میں انرجی حاصل کرنے کے لیے بتوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر سر جھکانا پڑتا ہے، جیساکہ ہندؤوں اور بعض دیگر مشرکین کے ہاں بت کی پوجا کا ایک طریقہ ہے، تاہم گیم میں ایسا کرنا لازم نہیں ہے، یعنی پلیئر انرجی حاصل کیے بغیر بھی گیم جاری رکھ سکتا ہے، اگرچہ اس کے بغیر اس کی کارکردگی متاثر ہونے کا قوی امکان ہوتا  ہے۔ اس تحقیق کے بعد یہ حکم لکھا گیا اگر کوئی انرجی کے حصول کے لیے جان بوجھ کر بت کے سامنے جھکے وہ شرک کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے دائرۂ اسلام  سے خارج ہے اور اس پر تجدیدِ ایمان لازم ہے اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدید نکاح بھی لازم ہے۔ 

اس فتوے کے مضمون کو غور سے نہ پڑھنے کی وجہ سے آپ کی طرح بہت سے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ اس  میں مذکورہ گیم کھیلنے والوں کو مطلقاً دائرۂ اسلام سے خارج قرار دیا گیا ہے، حال آں کہ صرف بت کے سامنے پلیئر کو جھکانے کے عمل کو شرک ہونے کی وجہ سے کفر  قرار دیا گیا ہے، اگر کوئی پب جی کھیلنے کے لیے سانہاک (sanhok) نامی نقشہ (map) نہ چنے یا  یہ نقشہ (map) ہی چنے، لیکن بت کے سامنے نہ جھکے تو اسے کافر قرار نہیں دیا گیا۔ 

نیز اطلاعات کے مطابق مسلمانوں کے احتجاج اور بائیکاٹ کرنے کی وجہ سے گیم سے یہ نقشہ (map) ہٹادیا گیا ہے، اس وجہ سے بہت سے  لوگوں کا خیال ہے کہ جب یہ  عمل  اس گیم کے اندر ہے ہی نہیں یا اگر تھا تو ہٹادیا گیا ہے پھر کیسے تحقیق کیے بغیر دائرۂ اسلام سے خارج ہونے کا فتوی دیا گیا؟ تو اس کا جواب شروع میں دیا گیا کہ یہ سوال وجواب جون کے مہینہ کا ہے جب یہ عمل اس میں موجود تھا۔  اور اس سوال کے مستفتی کا سوال اس وقت کے مطابق درست اور جواب بھی اسی کے مطابق تھا۔

چوں کہ اس بات کا امکان بہر حال موجود ہے کہ بہت سے مسلمانوں نے اس گیم کے سانہاک نقشے میں بتوں کے سامنے اپنے پلیئر کو جھکایا ہوگا، اس لیے مسلمانوں کا ایمان بچانے کے لیے اس کی نشان دہی کی گئی، تاکہ غفلت میں شرکیہ عمل کرنے والے توبہ کرکے ایمان کی تجدید کرلیں، اور اگر آئندہ کبھی کسی گیم میں ایسی چیز آئے تو مسلمانانِ عالم اپنے آپ کو اس طرح کے شرکیہ اعمال سے دور رکھیں۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتویٰ دیکھیے:

پب جی گیم میں شرک کیوں لازم آتا ہے؟

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:4، ص:222، ط: دار الفكر-بيروت):

"(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجودا حقيقة لكنه زائل حكما لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفا في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقا لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفاف واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة. وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلم زيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق".

الاختيار لتعليل المختار (ج:4، ص:150، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة):

"قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقة الصلاة في جماعة يكون مسلما) لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره".

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202201472

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں