کیا نا بالغ بچوں کی کفالت مد ّزکات سے کی جا سکتی ہے؟
نابالغ بچےکی ملکیت میں اگر بقدرِنصاب مال نہ ہو اور اُن کے والد بھی صاحبِ نصاب نہ ہوں اور سید بھی نہ ہوں تو پھر زکات کی مد سےاُن کی کفالت کی جاسکتی ہے، لیکن اگر خود اُن کی ملکیت میں بقدرِنصاب مال موجود ہو یااُن کےوالد صاحبِ نصاب ہو، توپھر زکات کی مد سے اُن کی کفالت جائزنہیں۔
مزید دیکھیے:
صاحبِ نصاب کی نابالغ اولاد کو زکات دینا
نابالغ بچوں کے مستحق زکات ہونے میں والد کی مالداری کا اعتبار ہے
فتاویٰ شامی میں ہے:
"(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائة درهم كما جزم به في البحر والنهر، وأقره المصنف قائل۔"
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، 347/2، ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(و) لا إلى (طفله) (قوله: ولا إلى طفله) أي الغني فيصرف إلى البالغ ولو ذكرا صحيحا قهستاني، فأفاد أن المراد بالطفل غير البالغ ذكرا كان أو أنثى في عيال أبيه أولا على الأصح لما عنده أنه يعد غنيا بغناه نهر۔"
(كتاب الزكاة، باب مصرف الزكاة والعشر، 349/2، ط:سعید)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144509102162
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن