بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صاحبِ نصاب کی نابالغ اولاد کو زکات دینا


سوال

دو نابالغ اور غیر صاحبِ  نصاب بچے ہیں ،ان کے والدین صاحبِ نصاب ہیں ،والدہ اپنی رقم بچوں پر استعمال نہیں کرتیں ،ان کی فیس وغیرہ کی ذمہ داری سے انکار کرتی ہیں ۔والد کا ذریعہ معاش دفتر ہے ، جس کا کرایہ آتا ہے تو فیس وغیرہ دیتے ہیں ،کرونا کی وجہ سے یہ سلسلہ بھی بند ہے ،مالی حالات صحیح نہیں ۔معلوم یہ کرنا ہے کہ ان بچوں کو ولی بنا کے  زکات دی جاسکتی ہے ؟اس بات کا خیال رکھا جائے گا کہ پیسہ صرف بچوں کی فیس یا ضروریات میں صرف ہو ۔

جواب

بصورتِ مسئولہ والد صاحبِ نصاب ہو اور بچوں کا نان نفقہ ادا کرتا ہو تو نابالغ بچوں کو  زکات کی رقم نہیں دی جاسکتی، اگر دی گئی تو زکات ادا نہیں ہوگی؛ خواہ براہِ راست بچوں کو زکات دی جائے یا ان کے والد کو بطور وکیل دی جائے۔

نابالغ  غریب بچے کو تین صورتوں میں زکات دی جاسکتی ہے، بشرطیکہ بچہ سمجھ دار  اور عقل مند ہو، مال پر قبضہ اور ملکیت کو سمجھتا ہو:

(1)   بچے کا والد فقیر ہو۔ (2) بچہ یتیم ہو۔ (3) بچے کا والد اس کے نفقے کی ذمہ داری بالکل ادا نہ کرتاہو۔

واضح رہے کہ والدہ کے ذمے بچوں کا نان نفقہ نہیں ہے، لہذا اگر وہ بچوں کی فیس اد انہیں کرتی تو اس سے مسئلے پر فرق نہیں پڑے گا۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے :

"ولايجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير، كذا في التبيين. ولو كان كبيراً فقيراً جاز، ويدفع إلى امرأة غني إذا كانت فقيرةً، وكذا إلى البنت الكبيرة إذا كان أبوها غنياً؛ لأن قدر النفقة لايغنيها، وبغنى الأب والزوج لاتعد غنية، كذا في الكافي". (1/ 189)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208201484

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں