بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

30 شوال 1445ھ 09 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ طالب علم کو زکوۃ دینا


سوال

کیا نابالغ طالب علم کو زکوۃ دی جا سکتی ہے؟

جواب

اگر نابالغ طالبِ علم کا والد  غریب ہو، طالبِ علم سمجھ دار ہو، زکوٰۃ کی رقم کو اپنے قبضے میں لینا جانتا ہو اور زکوٰۃ کا مستحق ہو (یعنی سید بھی نہ ہو اور اس کی ملکیت میں نصاب کے بقدر مال یا ضرورت سے زائد اتنا سامان نہ ہو) تو اسے زکوٰۃ کی رقم دینا درست ہے۔ اور اگر نابالغ طالبِ علم ناسمجھ ہو، مال پر قبضہ کرنا نہ جانتا ہو یا والد مال دار ہو اور بچے کا خرچہ خود اٹھاتا ہو تو اس صورت میں ایسے طالب علم کو زکوٰۃ کی رقم دینا جائز نہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"دفع الزكاة إلى ‌صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز ... (قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلايصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

(کتاب الزکوۃ، باب مصرف الزکوۃ والعشر، جلد:2، صفحہ:356، طبع: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"نوى الزكاة بما يدفع لصبيان أقربائه أو لمن يأتيه بالبشارة أو يأتي بالباكورة أجزأه۔"

(کتاب الزکوۃ، الباب السابع فی المصارف، جلد:1، صفحہ:190، طبع:دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144309101298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں