بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

نابالغ بچوں کے مستحق زکات ہونے میں والد کی مالداری کا اعتبار ہے


سوال

طلاق شدہ عورت کے بچے، جن کی کفالت اُن کا والد نہیں اٹھاتا اور نہ اس عورت کا دوسرا شوہر ہے، تو ایسے بچوں کو زکوۃ دے سکتے ہیں؟کیا دوسرا شوہر بھی اُن بچوں کو زکوۃ دے سکتا ہے؟ کیوں کہ وہ اس کی ذمے داری نہیں۔

جواب

واضح رہے کہ  نابالغ بچوں کے زکات کے مصرف ہونے میں والد  کی مالداری کا اعتبار  ہوتا ہے، اگر والد صاحبِ نصاب نہیں تو بچوں کو زکات دی جاسکتی ہےاور اگر والد صاحب ِ نصاب ہے تو نابالغ بچوں کو زکات نہیں دی جا سکتی ،نیز اگر والد بچوں پر خرچ نہیں کرتا  تو بچوں کی ماں کو حق ہے کہ وہ قانونی  چارا جوئی کر کے بچوں کا حق وصول کرےاور اگر یہ ممکن نہ ہو تو  بچوں کے قریبی رشتہ دار ان پر خرچ کریں گے اور باپ سے پیسے وصول کرسکتے ہیں، لیکن بچے اگر بالغ ہوں یا نابالغ  بچے سمجھ دار  ہوں   تو ان کو  براہِ راست زکوۃ دی جاسکتی ہے ،    مذکورہ تفصیل کو ملحوظ رکھتے ہوئے  سوتیلا باپ بھی زکات دے سکتا ہے۔

رد المحتار میں ہے :

"أن الطفل يعد غنيا بغنى أبيه بخلاف الكبير فإنه لا يعد غنيا بغنى أبيه ولا الأب بغنى ابنه ولا الزوجة بغنى زوجها ولا الطفل بغنى أمه."

(‌‌كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة والعشر،ج2،ص350،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے :

"(وتجب) النفقة بأنواعها على الحر (لطفله) يعم الأنثى والجمع (الفقير) الحر، .... فلو كانا فقيرين فالأب يكتسب أو يتكفف وينفق عليهم، ولو لم يتيسر أنفق عليهم القريب ورجع على الأب إذا أيسر ذخيرة.

مطلب. الكلام على نفقة الأقارب (قوله ورجع على الأب إذا أيسر) في جوامع الفقه: إذا لم يكن للأب مال والجد أو الأم أو الخال أو العم موسر يجبر على نفقة الصغير ويرجع بها على الأب إذا أيسر، وكذا يجبر الأبعد إذا غاب الأقرب؛ فإن كان له أم موسرة فنفقته عليها؛ وكذا إن لم يكن له أب إلا أنها ترجع في الأول."

(‌‌كتاب الطلاق‌‌،‌‌باب النفقة،مطلب الكلام على نفقة الأقارب،ج3،ص612-613،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے :

"دفع الزكاة إلى صبيان أقاربه برسم عيد أو إلى مبشر أو مهدي الباكورة جاز.......(قوله: إلى صبيان أقاربه) أي العقلاء وإلا فلا يصح إلا بالدفع إلى ولي الصغير."

(‌‌كتاب الزكاة،باب مصرف الزكاة والعشر،فروع في مصرف الزكاة،ج2،ص356،ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502101942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں