بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی میت کی / مریض کی تصویر اور عورت کی تصویر کے متعلق حکم


سوال

آج کل سوشل میڈیا میں مریض اور میت کی تصویریں بڑے شوق سے سوشل میڈیا میں شیئر کی جاتی ہیں، میت یا مریض کو جو بھی دیکھتا ہے تصویر بنا لیتا ہے اور پھر سوشل میڈیا پر لگا دیتا ہے، لواحقین کی اجازت کے بغیر سوشل میڈیا پر مردے اور مریض کی تصویر لگانا کس حد تک جائز ہے؟ نیز عورتوں کی تصویر لگانے کے بارے میں بھی راہ نمائی کریں۔

جواب

 صورت مسئولہ میں مرحوم شخص کی تصویر  بنانا، اور اسے اپنے پاس محفوظ رکھنا ، سوشل میڈیا پر شائع کرنا، ناجائز اور حرام ہے، لواحقین کی اجازت کے ذریعہ سے حرام فعل حلال نہیں ہوسکتا، اگر عورت کی تصویر ہو تو اس کی قباحت مزید بڑھ جاتی ہے

صحیح بخاری و صحیح مسلم میں حدیث میں ہے:

"عن أبي طلحة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال:لا تدخل الملائكة بيتاً فيه صورة".

 (صحيح البخاري، كتاب بدء الخلق، رقم الحدیث:3226، ص:385، ط:دار ابن الجوزي... صحيح مسلم: كتاب اللباس والزينة، رقم:206، ص:512، ط:دار ابن الجوزي)

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبد الله، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: إن أشد الناس عذاباً عند الله يوم القيامة المصورون".

(صحيح البخاري، كتاب اللباس، باب:عذاب المصورين، رقم الحدیث:5950، ص:463، ط:دار ابن الجوزي)

حدیث شریف میں ہے:

"عن عبدالله بن مسعود رضي الله عنه سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:إن أشد الناس عذاباً المصورون".

(مشكوة المصابيح، كتاب اللباس، باب التصاوير، ج:2، ص: 358، ط: قديمي)

فتاوی شامی میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم: الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال؛ لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ".

(كتاب الصلاة، مطلب:مكروهات الصلاة، ج:1، ص:647، ط:سعيد)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لا تمثال إنسان أو طير... ( قوله: أو طير) لحرمة تصوير ذي الروح".

(باب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، ج:3، ص:361، ط:سعيد)

اس حوالے سے مزید تفصیلات کے لیے ہمارے جامعہ کی ویب سائٹ پرجاری شدہ فتاوی ملاحظہ فرمائیں۔

ڈیجیٹل تصویر کے جائز ہونے کا فتوی کیوں؟

فیس بک پر کسی اجنبی خاتون کی تصویر لگانے کا حکم

میت کی تصویر کسی کو بھیجنا

میت کی تصویر بنانے کا حکم

تصاویر کا حکم

نامحرم کی تصویر یا ویڈیو دیکھنا

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں