بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گیمز (کھیلوں) کے جائز ہونے کی شرائط


سوال

میری عمر 13 سال ہے اور میں اور میرے والد پب جی  پچھلے ایک سال  کھیل  رہے تھے، آپ کا پب جی کا فتوی آنے کے بعد ہم نے گیم کھیلنا چھوڑ دیا ہے اور اب وہ سیزن اور  اپ ڈیٹ اور میپ ختم ہوگیا ہے اور وہ سجدے اور اس کے علاوہ باتیں تھیں وہ اب ہٹادی گئی ہیں، اب میں  اپنے والد صاحب کو ہر روز دن میں  کئی دفعہ پریشان کرتا ہوں کہ پب جی کو دوبارہ انسٹال کریں ، میرے والد صاحب نے  مجھے کہا کہ آپ سے رابطہ کروں اور اپنا مؤقف آپ پر واضح کروں ،اور آپ سے  درخواست کروں کہ پب  جی کھیلنے  پر جو آپ نے پابندی لگائی ہے، اس کو ختم کردیں!

جواب

 دینِ اسلام کھیل اور تفریح سے مطلقاً منع نہیں کرتا، بلکہ اچھی اور صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے، چناچہ بعض کھیل ایسے ہیں  جن کی اجازت خود نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے،  جیساکہ سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إن الله عز وجل يدخل بالسهم الواحد ثلاثة نفر الجنة، صانعه يحتسب في صنعته الخير، والرامي به، ومنبله. وارموا، واركبوا، وأن ترموا أحب إلي من أن تركبوا. ليس من اللهو إلا ثلاث: تأديب الرجل فرسه، وملاعبته أهله، ورميه بقوسه ونبله، ومن ترك الرمي بعد ما علمه رغبة عنه، فإنها نعمة تركها، « أو قال:» كفرها".

(1/363، کتاب الجہاد، ط: رحمانیہ)

         مذکورہ حدیث میں تین کھیلوں کو لہو لعب سے مستثنیٰ کیا گیا ہے، کیوں کہ  ”لہو “     اس  کام کو کہا جاتا   ہے جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو ، جب کہ یہ تینوں  مفید کام ہیں جن سے بہت سے دینی اور دنیوی فوائد وابستہ ہیں ، تیراندازی اور گھوڑے کو سدہانا تو جہاد کی تیاری میں داخل ہے اور بیوی کے ساتھ  ملاعبت  توالد و تناسل کے مقصد کی تکمیل ہے، چناچہ فقہاءِ کرام نے  ذخیرہ احادیث کو سامنے رکھ کر   چند اصول مرتب کیے ہیں ،  جن پر غور کرنے سے موجودہ زمانے کے تمام کھیلوں کا حکم معلوم ہوجاتا ہے، وہ اصول درج ذیل ہیں:

1۔۔  وہ کھیل بذاتِ خود جائز ہو، اس میں کوئی ناجائز   بات نہ ہو۔

2۔۔اس کھیل میں کوئی دینی یا دینوی منفعت (مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ)  ہو، محض لہو لعب یا وقت گزاری کے لیے نہ کھیلا جائے۔

3۔۔ کھیل میں غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جاتا  ہو۔

4۔۔کھیل میں اتنا غلو نہ کیا جائے  کہ جس سے شرعی فرائض میں کوتاہی یا غفلت پیدا ہو۔

ان اصولوں کی روشنی میں  پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی و دیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری  کے لیے کھیلا جاتا ہے، جو لایعنی کام ہے، اور  اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے، نیز  مشاہدہ یہ ہے کہ  جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں؛  لہذا اب بھی پب جی اور اس جیسے دیگر  گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

بے شک معلومات کے مطابق پب جی گیم کی انتظامیہ نے مذکورہ نقشہ  ختم کردیا ہے، جس سے متعلق  ہمارے ادارے سے تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کا بھی حکم جاری کیا گیا تھا، لیکن مذکورہ گیم کے کھیلنے کے عدمِ جواز پر اس اپ ڈیٹ سے فرق نہیں پڑے گا؛ لہذا آپ اپنے والد سے ضد نہ کریں، پب جی گیم سے توبہ تائب ہوجانا ایک اچھا فیصلہ ہے، اس پر ثابت قدم رہیں،  ایک مسلمان کی شان یہی ہے کہ  وہ اس طرح کی لہو و لعب کی چیزوں سے دور رہتا ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاوی ملاحظہ فرمائیں:

پب جی گیم اور تجدید نکاح

پب جی گیم سے متعلق فتوی کے بارے میں غلط فہمی کا ازالہ

پب جی گیم میں شرک کیوں لازم آتا ہے؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200826

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں