بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پب جی گیم اور تجدید نکاح


سوال

1- اب جن لوگوں نے پب جی کھیلا ہے اور اس میں شرکیہ اعمال وافعال بھی کیے ہیں جب کہ اس کی حرمت کا علم نہیں تھا اور نا ہی کھیلتے وقت ان اعمال کی طرف توجہ تھی تو آیا اب وہ بھی تجدیدِ نکاح کرے گا؟

2- ان میں کچھ لوگ مسافر ہیں اور اپنی بیوی بچوں سے دور ہیں اب ان کی تجدید نکاح کی کیا صورت ہو گی؟

جواب

واضح رہے کہ  پب جی (PUBG) گیم کئی طرح کے شرعی و دیگر مفاسد پر مشتمل ہے، اس کے کھیلنے میں نہ کوئی دینی اور نہ ہی کوئی دنیوی فائدہ ہے، مثلاً جسمانی  ورزش وغیرہ، یہ محض لہو لعب اور وقت گزاری  کے لیے کھیلا جاتا ہے، جو لایعنی کام ہے، اور  اس کو کھیلنے والے عام طور پر اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ پھر انہیں اس کا نشہ سا ہوجاتا ہے، اور ایسا انہماک ہوتا ہے کہ وہ کئی دینی بلکہ دنیوی امور سے بھی غافل ہوجاتے ہیں، شریعتِ مطہرہ ایسے لایعنی لہو لعب پر مشتمل کھیل کی اجازت نہیں دیتی، جب کہ اس میں مزید شرعی قباحت یہ بھی ہے کہ یہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ہوتا ہے، نیز  مشاہدہ یہ ہے کہ  جو لوگ اس گیم کو بار بار کھیلتے ہیں، ان کا ذہن منفی ہونے لگتا ہے اور گیم کی طرح وہ واقعی دنیا میں بھی ماردھاڑ وغیرہ کے کام سوچتے ہیں، جس کے بہت سے واقعات وقوع پذیر ہوئے ہیں؛  لہذا پب جی اور اس جیسے دیگر  گیم کھیلنا شرعاً جائز نہیں ہے۔

لیکن  مطلقًا  پب جی (pubg) گیم کھیلنا کفر نہیں ہے اور نہ ہی مطلقًا پب جی  گیم کھیلنے پر کفر  کا فتوی دیا گیا ہے، بلکہ  ہماری معلومات کے مطابق:

’’کچھ عرصہ قبل اس گیم کے بنانے والوں نے اس  گیم کے ایک Sanhok نامی نقشے  (map) میں ایک نیا موڈ  بنام   ‘‘Mysterious Jungle mode’’ـ متعارف کروایا تھا جس میں صحت اور  اسلحہ  حاصل کرنے کے لیے ایک آپشن بتوں کی عبادت  کرنا بھی تھا۔  یعنی جس طرح پاور حاصل کرنے کے لیے انرجی ڈرنک، میڈیکل کٹس وغیرہ گیم میں موجود ہیں، اسی طرح   'سانہاک' کے اس خاص موڈ میں   بتوں کی تعظیم بھی پاور حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے، البتہ یہ لازمی نہیں ہے، یعنی اگر کھلاڑی اس سے پاور حاصل نہ کرے تو  بھی وہ گیم  کھیل سکتا ہے، اگرچہ یہ ممکن ہے کہ ا س سے اس کی کارکردگی میں فرق آئے، البتہ اس اپ ڈیٹ  پر بہت سے مسلمانوں کی طرف سے اعتراض اور اس گیم کے بائیکاٹ کرنے کے نتیجے میں چند دنوں بعد ہی اس گیم سے ہٹا دیا گیا تھا۔

اس خاص موڈ میں بتوں کے سامنے پاور کے لیے جھکنے والی صورت سے متعلق سوال آیا تھا اور اسی کا جواب دیا گیا تھا، اور ممکن ہے کسی زمانہ میں  اپ ڈیٹ میں یہ  دوبارہ   شامل ہوجائے، اس لیے اب اس سارے تناظر میں مسئلہ کا حکم یہ ہے:

مطلقًا پب جی گیم کھیلنا  ناجائز ہے، لیکن اس کو کھیلنے والا دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا، یہاں تک کہ اگر کسی نے سانہاک نقشے کے جنگل موڈ میں کھیلا ہو، لیکن بتوں سے پاور حاصل  نہیں کی ہو  تب بھی وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوا، البتہ اگر کسی نے عمدًا پاور حاصل کرنے کے  لیے پلئیر کو  بت کے سامنے جھکایا ہو  تو چوں کہ پلئیر درحقیقت  کھیلنے والے کا عکاس اور ترجمان  ہے، اور کھیلنے والا اس کو جس طرح  چلائے وہ اسی طرح چلتا ہے،  اپنے اختیار سے کچھ نہیں کرسکتا، اور کوئی ایسی خاص ضرورت بھی نہیں ہے کہ پلئیر کو بت کے سامنے جھکایا جائے، اور شریعت نے بعض ایسی چیزیں  جو کفر کی علامات اور خصائص ہیں ان کے کرنے پر مطلقًا کفر کا حکم دیا ہے  اگر چہ ان کا قصد وارادہ نہ ہو، جیسے بتوں کے سامنے سجدہ کرنا، قرآن مجید کو گندگی میں پھینکنا وغیرہ؛ اس  لیے  اس خاص  صورت میں تجدیدِ ایمان اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں تجدیدِ نکاح کا حکم دیا گیا ہے۔

نیز  اس خاص نقشے سانہاک میں بتوں کے سامنے جھکنے کا انداز ایک خاص علاقے کے لوگوں کی پوجا کا  طریقہ ہے اور گیم میں پلئیر جب بت کے سامنے جاتا ہے تو اس وقت انگریزی زبان میں وہاں جو الفاظ نمودار ہوتے ہیں  اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس پلئیر کو تعظیم کرنے کا حکم دے رہا ہے اور پاور ملنے کے بعد جو الفاظ ظاہر ہوتے ہیں وہ بھی  شرکیہ  ہیں،اس لیے ہر مسلمان کو اس قسم کی چیزوں سے بالکلیہ اجتناب کرنا لازم ہے۔

2- مذکورہ تفصیل کے مطابق جن لوگوں کو تجدید نکاح کا حکم ہے  تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ:  دومرد گواہوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی موجودگی میں باہمی رضامندی سے نئے مہر کے ساتھ نکاح کا ایجاب وقبول کرلیا جائے،  مثلاً: بیوی کہے کہ: میں نے  اتنے مہر کے بدلہ اپنے آپ کو آپ کے نکاح میں دیا اورشوہر کہے کہ میں نے قبول کیا۔

اور جو لوگ مسافر ہیں  تو ایسے لوگ عورت سے فون پر اپنے آپ سے نکاح کرنے کی وکالت لے لیں پھر دو گواہوں کی موجودگی میں  اپنا نکاح خود کرلیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (ج:4، ص:222، ط: دار الفكر-بيروت):

"(قوله: من هزل بلفظ كفر) أي تكلم به باختياره غير قاصد معناه، وهذا لاينافي ما مر من أن الإيمان هو التصديق فقط أو مع الإقرار لأن التصديق، وإن كان موجودا حقيقة لكنه زائل حكما لأن الشارع جعل بعض المعاصي أمارة على عدم وجوده كالهزل المذكور، وكما لو سجد لصنم أو وضع مصحفا في قاذورة فإنه يكفر، وإن كان مصدقا لأن ذلك في حكم التكذيب، كما أفاده في شرح العقائد، وأشار إلى ذلك بقوله للاستخفاف، فإن فعل ذلك استخفاف واستهانة بالدين فهو أمارة عدم التصديق ولذا قال في المسايرة: وبالجملة فقد ضم إلى التصديق بالقلب، أو بالقلب واللسان في تحقيق الإيمان أمور الإخلال بها إخلال بالإيمان اتفاقا، كترك السجود لصنم، وقتل نبي والاستخفاف به، وبالمصحف والكعبة. وكذا مخالفة أو إنكار ما أجمع عليه بعد العلم به لأن ذلك دليل على أن التصديق مفقود، ثم حقق أن عدم الإخلال بهذه الأمور أحد أجزاء مفهوم الإيمان فهو حينئذ التصديق والإقرار وعدم الإخلال بما ذكر بدليل أن بعض هذه الأمور، تكون مع تحقق التصديق والإقرار، ثم قال ولاعتبار التعظيم المنافي للاستخفاف كفر الحنفية بألفاظ كثيرة، وأفعال تصدر من المنتهكين لدلالتها على الاستخفاف بالدين كالصلاة بلا وضوء عمدا بل بالمواظبة على ترك سنة استخفافا بها بسبب أنه فعلها النبي صلى الله عليه وسلمزيادة أو استقباحها كمن استقبح من آخر جعل بعض العمامة تحت حلقه أو إحفاء شاربه اهـ. قلت: ويظهر من هذا أن ما كان دليل الاستخفاف يكفر به، وإن لم يقصد الاستخفاف لأنه لو توقف على قصده لما احتاج إلى زيادة عدم الإخلال بما مر لأن قصد الاستخفاف مناف للتصديق".

الاختيار لتعليل المختار (ج:4، ص:150، ط: مطبعة الحلبي - القاهرة):

"قال: (والكافر إذا صلى بجماعة أو أذن في مسجد، أو قال: أنا معتقد حقيقة الصلاة في جماعة يكون مسلما) لأنه أتى بما هو من خاصية الإسلام، كما أن الإتيان بخاصية الكفر يدل على الكفر، فإن من سجد لصنم أو تزيا بزنار أو لبس قلنسوة المجوس يحكم بكفره".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144202201223

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں