بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاندی کے اعتبار سے نصاب کا مالک زکات کا مستحق نہیں


سوال

 زکوٰۃ کے مستحقین کے لیے لکھا گیا کہ اس کے پاس 52 تولہ چاندی سے کم آمدن ہونی چاہیے  یا 7 تولہ سونا سے،  سونا اور چاندی کی قیمتوں میں بہت فرق آ چکا ہے، جب یہ حکم ہوا تھا تب برابر تھے، جس کے پاس پانچ اونٹ یا 40 بکریاں ہوں وہ بھی زکوٰۃ ادا کرے گا تو چاندی کی قیمت اور ان میں بہت فرق ہے، کیا میں ایسے شخص کو زکوٰۃ ادا کر سکتا ہوں جو کہ بہت غریب نہ ہو بلکہ تنگ ہو، اگر میں 7 تولے سونا کے حساب سے دیکھتا ہوں تو وہ حق دار ہے، اگر چاندی کو دیکھتا ہوں تو وہ نہیں ہے۔

جواب

         اگر کوئی شخص غریب اور ضروت مند ہے  اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر  رقم نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید  ، ہاشمی ہےتو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی،  اگر کسی کے پاس  کچھ زیور اور ضرورت سے زائد  کچھ نقدی ہو تو اگر دونوں کی قیمت ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے تو اس کو  زکات دینا جائز نہیں ہے، اگر اس سے کم قیمت بنتی ہے اس کو زکات دینا جائز ہوگا۔

خلاصہ یہ ہے کہ جو شخص سونا ، چاندی یا کسی بھی دوسرے نصاب کے بقدر زائد از ضرورت مال کا مالک ہو اسے زکات دینے سے زکات ادا نہیں ہوگی، ایسے افراد جو صاحب نصاب ہونے کے باوجود غریب اور ضرورت مند ہوں ان کی مدد نفلی صدقات کے ذریعہ کرنی  چاہیے۔

مذکورہ شخص کے پاس اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر نقد رقم  یا  استعمال سے زائد اتنی مالیت کا  سامان  موجود ہے اور اس پر اتنا قرض نہیں ہے کہ اسے منہا کرنے کے بعد وہ نصاب کا مالک نہ رہے، تو اسے زکات دینے سے زکات ادا نہیں ہوگی۔ 

مزید تفصیل و فائدے کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

سونے اور چاندی کے نصاب کی قیمت میں فرق کی وجہ سے صاحب نصاب کا کیسے علم ہوگا؟

قربانی کے وجوب میں سونا و چاندی میں سے کس نصاب کا اعتبار ہوگا؟

چاندی کے نصاب کو معیار بنانے کی وجہ

زکات کے نصاب کا معیار

'' فتاوی عالمگیری'' میں ہے:

'' لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. ... ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي."

(1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة، ط: رشیدیه) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں