ہم نصاب زکوۃ کس کو مانیں سونے کو یا چاندی کو؟ عہدِ نبوی ﷺ میں تو دونوں کی قیمت برابر تھی، مگر اب بہت تفاوت ہے، اب کس کو معیار بنائیں ؟
ایسی صورتِ حال جس میں دونوں کی قیمت میں تفاوت ہو جائے فقہاء نے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ اس چیز کو معیار بنایا جائے جس میں غریبوں کا فائدہ ہو یعنی کم قیمت والی چیز کو معیار بنایا جائے، لہذا اس اصول کے مطابق آج کل کی صورت میں جب مخلوط مال ہو تو چاندی کی قیمت کو ہی معیار بنایا جائے گا۔
ملاحظہ ہوالاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:
"والتقويم بعرف المالية والنقدان في ذلك سواء فيخير. وعن أبي حنيفة : يقومها بما هو أنفع للفقراء، وهو أن يبلغ نصابًا نظرًا لهم. (1/120)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"ولو ضم أحد النصابين إلى الأخرى حتى يؤدي كله من الذهب أو من الفضة لا بأس به، لكن يجب أن يكون التقويم بما هو أنفع للفقراء قدرًا ورواجًا، وإلا فيؤدي من كل واحد ربع عشره، كذا في محيط السرخسي". (5/67،طبع بیروت)
مذکورہ بالاعبارات کی بنا پرعلماء نے لکھاہے کہ اگرنصاب سے کم سونا ہو اور اس کے ساتھ ضرورت سے زائدمعمولی رقم بھی بچت میں ہو جس کی مجموعی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو آدمی صاحبِ نصاب شمار ہوگا، اور سال پورا ہونے پر بھی اگر اس معیار کے مطابق صاحبِ نصاب ہو تو زکات کی ادائیگی واجب ہوگی۔ البتہ اگرعورت کے پاس یومیہ یا ماہانہ ضروری خرچ کی رقم موجود ہو اور وہ روزانہ یا مہینے کے اندر اندر خرچ ہوجاتی ہو ضرروت سے زائدکچھ رقم نہ بچتی ہو، اس صورت میں اگر اس کے پاس صرف سوناہو اورنصاب (ساڑھے سات تولہ) سے کم ہو تو زکات واجب نہ ہوگی۔
فتاویٰ رحیمیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں مفتی عبدالرحیم لاجپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’نقدپانچ روپیہ زائدازضرورت ہو اورتین تولہ سوناہو تو زکوۃ اس لیے فرض ہوجاتی ہے کہ نقدرقم چاندی سونے کے حکم میں ہے،اورتین تولہ سونا اورنقد پانچ روپے مل کرساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہوجاتے ہیں،اس لیے زکوۃ واجب ہوجائے گی‘‘۔(7/156،دارالاشاعت)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144110201069
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن