بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چاندی کے نصاب کو معیار بنانے کی وجہ


سوال

اگر کسی کے پاس ایک تولہ سونا ہو تو جس کی آج کل مالیت ایک لاکھ  روپے سے زائدہے تو کیا وہ بھی زکوۃ  ادا کرے گا جب کہ زکوۃ  ساڑھے سات تولہ سونے پر فرض ہوتی ہے تو اس پر چاندی کا 44000 ہزار روپے کا نصاب کس بنا پر لاگو کرتے ہیں؟ جب کہ آج کل چاندی کسی کے پاس موجود نہیں، شاذو نادر ہی کسی کے پاس موجود ہو، پر سونا تو تقریباً ہر کسی گھر میں موجود ہوتا ہے تو  آپ مفتیانِ کرام صرف سونے کا نصاب کیوں نہیں نکالتے؟ بیچ میں چاندی کا نصاب کس بنا پر ایڈ کر دیتے ہیں، اس کا جواب قرآن و حدیث سے دلائل کی روشنی میں عطا کریں !

جواب

سونے کی زکاۃ کا نصاب ساڑھے سات تولہ اس وقت ہے جب کہ سونے کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (چاندی، رقم، مالِ تجارت) موجود نہ ہو، لہٰذا اگر کسی کے پاس صرف ایک تولہ سونا موجود ہو اورنقد رقم، مالِ تجارت یا چاندی کچھ بھی موجود نہ ہو تو اس پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔

لیکن اگر سونے کے ساتھ  کوئی اور قابلِ زکاۃ مال (نقدی یا مالِ تجارت یا چاندی) موجود ہو، تو پھر صرف سونے کے نصاب کا اعتبار نہیں کیا جائے گا، بلکہ ایسی صورت میں چاندی کے نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی) کی قیمت کا اعتبار کیا جائے گا، لہٰذا اگر سونے اور دوسرے قابلِ زکاۃ مال کو ملا کر مجموعی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ ہوجائے تو اس پر زکاۃ ہوگی۔

ایک سے زیادہ مال جمع ہونے کی صورت میں چاندی کے نصب کا اعتبار اس لیے کیا گیا کہ زکاۃ کے وجوب میں فقراء کی حاجت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جس میں فقراء کا فائدہ ہو فقہاء کرام نے اس کو اختیار کیا ہے، اور موجودہ دور میں چاندی کا نصاب کم ہے، لہٰذا زکاۃ واجب ہونے کی صورت میں فقراء کا فائدہ ہوگا۔

نیز  سونا، چاندی، رقم اور مالِ تجارت ایک نوعیت کے اور معنیً متحد اموال ہیں۔  سونا، چاندی اور رقم کی خلقت اور وضع ہی مال کے طور پر ہے، اور ثمنیت کے اعتبار سے یہ تینوں اموالِ تجارت ہیں، دیگر اموالِ تجارت کی لین دین بھی اِن ہی کے ذریعے انجام پاتی ہے، خلاصہ یہ کہ مذکورہ چاروں اموال ایک جنس کے اموال ہیں، اسی لیے ان چاروں اموال میں زکاۃ کی واجب ہونے والی مقدار ڈھائی فی صد یعنی چالیسواں حصہ ہے۔ 

اور فقہاءِ کرام کا سونے چاندی اور رقم کو ایک طرح کے اموال کی فہرست میں شامل کرنا اپنی طرف سے نہیں ہے، بلکہ اس کی اصل صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل ہے، چناں چہ اس بارے میں صاحبِ بدائع الصنائع علامہ کاسانی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں : 

’’بکیر  بن عبد اللہ بن الاشج  سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کا طریقہ  سونے کو چاندی کے ساتھ ملا کر اور چاندی کو سونے کے ساتھ ملاکر زکاۃ نکالنے  کا تھا‘‘۔

یعنی اگر سونا یا چاندی میں سے کوئی ایک نصاب کو نہ پہنچے، لیکن دونوں کو ملاکر کسی ایک کے نصاب کو پہنچ جائے تو صحابہ کرام اس کی زکاۃ ادا کیا کرتے تھے۔

تفصیل اس کی یہ ہے کہ احادیثِ مبارکہ میں سونے پر زکاۃ واجب ہونے کا نصاب بیس دینار (مثقال) اور چاندی پر زکاۃ واجب ہونے کا نصاب دو سو درہم بیان کیا گیا ہے، اس دور میں رائج کرنسی عموماً سونا اور چاندی تھی، اور خلقت کے اعتبار سے یہ دونوں اصل مال ہیں، دیگر اشیاء تجارت کی نیت یا عرف کی وجہ سے مال بنتی ہیں، اس لیے ان دونوں کے نصاب الگ الگ بتادیے گئے، لہٰذا اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو تو اس کا نصاب بیس مثقال متعین کیا گیا، اور صرف چاندی ہو تو نصاب دو سو درہم متعین کیا گیا، اور جن کے پاس دونوں طرح (سونا، چاندی) کا مال ہو اور ان میں سے ہر ایک نصاب کی مقدار کو پہنچتا تو وہ عموماً دونوں اموال کا الگ الگ حساب کردیا کرتا تھا، اور جس کے پاس دونوں اموال ہوتے، لیکن کوئی ایک بھی اپنے نصاب کو نہ پہنچتا، البتہ دونوں ملاکر کسی ایک کے نصاب کو پہنچ جاتا تو بھی وہ اس کی زکاۃ ادا کرتا تھا، تاہم اس دور میں چوں کہ بیس مثقال اور دو سو درہم کی مالیت میں زیادہ فرق نہیں آیا تھا، نیز کرنسی بھی عموماً سونا یا چاندی کی صورت میں تھی، اس لیے ان میں سے کسی ایک کی صورت میں زکاۃ ادا کی جاتی تھی، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آخر زمانے میں اور ان کے بعد کے ادوار میں دونوں نصابوں کی مالیت میں فرق واقع ہوگیا تو  قرونِ اولیٰ میں ہی ائمہ مجتہدین نے نصوص کی روشنی میں یہ فتویٰ دیا کہ اگر سونا یا چاندی تنہا نصاب کو نہ پہنچے، لیکن دونوں ملاکر یا صرف مالِ تجارت یا صرف دیگر دھاتوں یا کاغذ کی کرنسی ہونے کی صورت میں یا مذکورہ اموال میں سے کوئی دو یا زائد جمع ہونے کی صورت میں اگر مجموعی قیمت کسی بھی ایک نصاب کی مالیت کو پہنچ جائے تو زکاۃ واجب ہوگی، خواہ چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے، خواہ سونے کے نصاب کو پہنچ جائے، لہٰذا اگر بالفرض سونے کی مالیت کم ہوجائے اور چاندی کی مالیت بڑھ جائے تو معیار سونے کے نصاب کی مالیت ہوجائے گی، اور اس کی بنیاد قرآنِ پاک اور احادیثِ مبارکہ میں زکاۃ، صدقہ اور انفاق فی سبیل اللہ کی بلیغ ترغیب اور اَحکام ہیں۔

لہذا ان میں سے ہر ایک یعنی سونا چاندی، نقد رقم اور سامان تجارت کو نصاب سے کم ہونے کی صورت میں  ایک ساتھ  ملاکر نصاب پورا کیا جائے گا۔

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" (2/ 19):
"فأما إذا كان له الصنفان جميعاً فإن لم يكن كل واحد منهما نصاباً بأن كان له عشرة مثاقيل ومائة درهم، فإنه يضم أحدهما إلى الآخر في حق تكميل النصاب عندنا... (ولنا) ما روي عن بكير بن عبد الله بن الأشج أنه قال: مضت السنة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم بضم الذهب إلى الفضة والفضة إلى الذهب في إخراج الزكاة ؛ ولأنهما مالان متحدان في المعنى الذي تعلق به وجوب الزكاة فيهما وهو الإعداد للتجارة بأصل الخلقة والثمنية، فكانا في حكم الزكاة كجنس واحد ؛ ولهذا اتفق الواجب فيهما وهو ربع العشر على كل حال وإنما يتفق الواجب عند اتحاد المال.
وأما عند الاختلاف فيختلف الواجب وإذا اتحد المالان معنىً فلا يعتبر اختلاف الصورة كعروض التجارة، ولهذا يكمل نصاب كل واحد منهما بعروض التجارة ولا يعتبر اختلاف الصورة، كما إذا كان له أقل من عشرين مثقالاً وأقل من مائتي درهم وله عروض للتجارة ونقد البلد في الدراهم والدنانير سواء فإن شاء كمل به نصاب الذهب وإن شاء كمل به نصاب الفضة، وصار كالسود مع البيض، بخلاف السوائم؛ لأن الحكم هناك متعلق بالصورة والمعنى وهما مختلفان صورة ومعنى فتعذر تكميل نصاب أحدهما بالآخر". فقط والله أعلم

اس کی تفصیلی وجوہات اور دلائل کے لیے درج ذیل لنک پر اس متعلق تحقیق ملاحظہ ہو:

قربانی کے نصاب کا معیار سونا یا چاندی؟


فتوی نمبر : 144111201853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں