بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

صحت جمعہ کی شرائط


سوال

کیا فرماتے ہیں مفتیانِ  کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ صاحبِ کفایت المفتی مفتی اعظم ہند حضرت مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ  کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، کفایت المفتی جلد  3صفحہ258 پرایک سوال کا جواب دیتے ہوئےمصر کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

" جس مقام کے لوگوں کی سب سےبڑی مسجد وہاں کے مکلف لوگوں کی گنجائش نہ رکھے،  یعنی لوگوں سے بھر جائے، (ما لایسع أکبر مساجده أهله المکلفین بها)  وہ مصر ہے ، بہت سے فقہاءِ  عظام کے نزدیک یہ قول معتبر و مفتی بہ ہے ، اس کے موافق عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔" 

اسی سے پچھلے صفحے 257پر بھی ایک فتویٰ اسی نوعیت کا ہے۔

  قابلِ  سوال امر یہ ہے کہ کیا مفتی اعظم ہند رحمہ اللہ  کے ان فتاوی پر عمل کرتے ہوئے کسی علاقے میں نماز جمعہ جائز ہے؟

جواب

احناف کے نزدیک جمعہ کی ادائیگی کے صحیح ہونے کے لیے (مصر)شہر یا(قریۂ کبیرہ)بڑی بستی کاہوناضروری ہے،(مصر)شہر کی تعریف میں فقہاء کی آراء مختلف ہیں،بعض حضرات نے مردم شماری کے لحاظ سے آبادی کی تعداد کاخیال رکھاہے۔بعض نے صنعت   وحرفت پرمصر کا مدار  رکھاہے،اور بعض نے حدود وقصاص کے نفاذ کو معیار بنایاہے،اور بعض کے نزدیک شہر وہ علاقہ کہلائے گا جہاں کی بڑی مسجد وہاں کے رہائشیوں کے لیے کافی نہ ہو۔

راجح یہ ہے کہ شہر  یاقریہ کبیرہ  وہ جگہ کہلائے گی جہاں  ضروریاتِ  زندگی میسر ہوں اور آبادی کے لحاظ سے اڑھائی تین ہزار افراد پرمشتمل آبادی ہو، تب جمعہ کی ادائیگی درست ہوگی،محض بڑی مسجدکامکلف افراد کی گنجائش نہ رکھنا کافی نہیں،یہ تعریف چھوٹی بستیوں پر بھی صادق آتی ہے،جیساکہ آئندہ ذکرکردہ عبارات سے واضح ہے؛ لہذا اس قول پر عمل کی اجازت نہیں ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنکس  پر فتاویٰ ملاحظہ کیجیے:

گاؤں میں جمعہ کی نماز نہ ہونے سے متعلق حدیث

گاؤں میں جمعہ کا حکم

گاؤں میں عیدین اور جمعہ سے متعلق ایک سوال

بدائع الصنائع میں ہے:

'' أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام ، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة ، وفي رواية قال : إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة ، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها ، وقال بعض أصحابنا : المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى ، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال : أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة ، وقال سفيان الثوري : المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة ، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال : أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام ، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما .

وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح."

(بدائع الصنائع،فصل بیان شرائط الجمعۃ )

فتاوی شامی میں ہے:

''قوله: ( ما لايسع إلخ ) هذا يصدق على كثير من القرى ط قوله: ( المكلفين بها ) احترز به عن أصحاب الأعذار مثل النساء والصبيان والمسافرين ط عن القهستاني  قوله: (وعليه فتوى أكثر الفقهاء إلخ ) وقال أبو شجاع: هذا أحسن ما قيل فيه، و في الولوالجية: وهو صحيح  بحر  وعليه مشى في الوقاية و متن المختار وشرحه و قدمه في متن الدرر على القول الآخر و ظاهره ترجيحه و أيده صدر الشريعة بقوله: لظهور التواني في أحكام الشرع سيما في إقامة الحدود في الأمصار . قوله: ( وظاهر المذهب إلخ ) قال في شرح المنية: والحد الصحيح ما اختاره صاحب الهداية أنه الذي له أمير و قاض ينفذ الأحكام و يقيم الحدود و تزييف صدر الشريعة له عند اعتذاره عن صاحب الوقاية حيث اختار الحد المتقدم بظهور التواني في الأحكام مزيف بأن المراد القدرة على إقامتها على ما صرح به في التحفة عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمته وعلمه أو علم غيره يرجع الناس إليه فيما يقع من الحوادث وهذا هو الأصح."

مجمع الانہر میں ہے:

''( وقيل ) : قائله صاحب الوقاية وصدر الشريعة وغيرهما ( ما لو اجتمع أهله في أكبر مساجده لا يسعهم ) هذا رواية أخرى عن أبي يوسف وهو اختيار الثلجي وإنما أورد بصيغة التمريض لأنهم قالوا : إن هذا الحد غير صحيح عند المحققين''۔(2/31)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"قوله: (و لما كان حد المصر مختلفًا فيه على أقوال كثيرة) الفصل في ذلك أن مكة و المدينة مصران تقام بهما الجمعة من زمنه صلى الله عليه وسلم إلى اليوم فكل موضع كان مثل أحدهما فهو مصر وكل تفسير لايصدق على أحدهما فهو غير معتبر كقولهم هو ما لايسع أهله أكبر مساجده أو ما يعيش فيه كل محترف بحرفته أو يوجد فيه كل محترف وغير ذلك."(1/332)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں