بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گاؤں میں جمعہ کی نماز نہ ہونے سے متعلق حدیث


سوال

ہمارے گاؤں میں جمعہ نہیں ہوتا ، چھوٹا سا گاؤں ہے،  بیس سے پچیس گھر آبادی ہے،  صرف ایک دکان ہے کریانہ  اسٹور،  ہمارے گاؤں میں ایک  دو اہلِ حدیث ہیں،  کہتے ہیں کہ:   جمعہ کرو،  جمعہ ہو جائے گا،  حدیث سے ثابت ہے،  ہم لوگوں نے اپنے علاقے کے مفتی  صاحب سے پوچھا، وہ کہتے ہیں کہ:   جمعہ نہیں ہو گا،  اہلِ حدیث والے کہتے ہیں  کہ : ہمیں فتویٰ چاہیے ،کسی حدیث سے،  پھر ہم اصلاح کر لیں گے !

 

جواب

جمعہ کی نماز کے صحیح ہونے کی پانچ شرائط ہیں :

۱۔ شہر یا قصبہ یا اس کا فنا(مضافات) ہونا۔

۲۔  ظہر کا وقت ہونا۔

۳۔  ظہر  کے وقت میں نمازِ  جمعہ سے پہلے خطبہ ہونا۔

۴۔ جماعت یعنی امام کے علاوہ  کم از   کم تین بالغ مردوں کا خطبے کی ابتدا سے پہلی رکعت کے سجدہ تک موجود رہنا۔

۵۔اذنِ عام (یعنی نماز قائم کرنے والوں کی طرف سے نماز میں آنے والوں کی اجازت) کے ساتھ نمازِ جمعہ کا پڑھنا۔

 سوال  میں جس گاؤں کا ذکر کیا گیا ہے یہ ایک چھوٹا گاؤں ہے، شہر یا قصبہ نہیں، اس لیے اس گاؤں میں جمعہ کی نماز ادا کرنا درست نہیں ہو گا، اس مسئلہ سے متعلق   کتبِ احادیث میں  منقول  حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول حجت ہے، وہ فرماتے ہیں: "جمعہ اور تشریق (عید) جائز  نہیں ہے مگر شہر میں"  یعنی جمعہ اور عیدین کی نماز صرف بڑے شہر میں ہی ادا کی جاسکتی ہے، نیز نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی مدینہ ہی میں جمعہ قائم کیا جاتا تھا، آس پاس کے دیہاتوں میں جمعہ قائم نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ مدینہ سے باہر بہت سی بستیوں کے لوگ مسلمان ہوگئے تھے، اور بہت سے علاقے فتح ہوگئے تھے، پھر بھی وہاں جمعہ قائم نہیں کیا گیا، جب کہ وہاں کے لوگ مدینہ میں حاضر ہوکر جمعے میں شریک نہیں ہوسکتے تھے؛ یہاں تک کہ  "جواثیٰ"  کے لوگوں (یعنی وفدِ عبد القیس )  نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر بخوشی اسلام قبول کیا، اور واپس اپنے علاقے میں  جاکر  سنہ 7 ہجری میں "جواثیٰ" (جو اس وقت بہت بڑا قصبہ اور مرکزی حیثیت رکھتا تھا) میں جمعہ قائم کیا، اور  مدینہ کے بعد  یہ پہلی  جگہ تھی جہاں جمعہ قائم کیا گیا۔ 

اسی طرح صحابہ کرامؓ نے فتوحات کے بعد صرف شہروں میں ہی جمعہ کے قیام کا اہتمام کیا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر اجماع ہے کہ جمعہ قائم کرنے کے لیے شہر ہونا شرط ہے۔ اور جمعہ چوں کہ شعائرِ اسلام میں سے ہے،  اس کے مناسب بھی یہی ہے کہ وہ بڑی جگہوں پر ہی قائم کیا جائے۔ چناں  چہ  جمعے کے قیام کے لیے شہر یا ایسی بستی ہونا ضروری ہے  جس میں انسانی ضروری حاجات میسر ہوں، ان ضروریات کی موجودگی میں ایسی بستی کو شہر قصبہ یا بڑا گاؤں کہا جائے گا،  وہاں گلی کوچے ہوں، محلے ہوں، ضروریات ہمیشہ ملتی ہوں، ڈاکٹر کے کلینک ہوں، ڈاک خانے اور پنچایت کا نظام ہو، ضروری پیشہ ور موجود ہوں، آس پاس دیہات والے اپنی ضروریات وہاں سے پوری کرتے ہوں۔اور اس  جگہ کی آبادی اگر ڈھائی،  تین ہزار ہو تو اس میں جمعہ جائز ہے۔

لہذا مذکورہ گاؤں میں ظہر ہی کی نماز ادا کی جائے، جمعہ کی نماز ادا نہ کی جائے۔

سنن البيهقي لأبو بكر البيهقي (2/ 433)

" عن سعد بن عبيدة عن أبى عبد الرحمن قال قال على رضى الله عنه لا جمعة ولا تشريق إلا فى مصر جامع".

إعلاء السنن (ج: 8، ص1):

"عن علي أنه قال: لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر". 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 259):

"وأما الشرائط التي ترجع إلى غير المصلي فخمسة في ظاهر الروايات: المصر الجامع، والسلطان، والخطبة، والجماعة، والوقت.

أما المصر الجامع فشرط وجوب الجمعة وشرط صحة أدائها عند أصحابنا حتى لا تجب الجمعة إلا على أهل المصر ومن كان ساكنا في توابعه. وكذا لا يصح أداء الجمعة إلا في المصر وتوابعه فلا تجب على أهل القرى التي ليست من توابع المصر ولا يصح أداء الجمعة فيها. وقال الشافعي: المصر ليس بشرط للوجوب ولا لصحة الأداء فكل قرية يسكنها أربعون رجلا من الأحرار المقيمين لا يظعنون عنها شتاء ولا صيفا تجب عليهم الجمعة ويقام بها الجمعة واحتج بما روي عن ابن عباس - رضي الله عنهما - أنه قال أول جمعة في الإسلام بعد الجمعة بالمدينة لجمعة جمعت بجواثى وهي قرية من قرى عبد القيس بالبحرين.

وروي عن أبي هريرة أنه كتب إلى عمر يسأله عن الجمعة بجؤاثى فكتب إليه أن أجمع بها وحيث ما كنت؛ ولأن جواز الصلاة مما لا يختص بمكان دون مكان كسائر الصلوات۔

ولنا ما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لا جمعة ولا تشريق إلا في مصر جامع» ، وعن علي - رضي الله تعالى عنه - «لا جمعة ولا تشريق ولا فطر ولا أضحى إلا في مصر جامع» ، وكذا النبي صلى الله عليه وسلم «كان يقيم الجمعة بالمدينة» ، وما روي الإقامة حولها، وكذا الصحابة - رضي الله تعالى عنهم - فتحوا البلاد وما نصبوا المنابر إلا في الأمصار فكان ذلك إجماعا منهم على أن المصر شرط".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201854

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں