بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دینی بیانات کے نشر کرنے کے لیےکسی عالم کی ویڈیو بنانا


سوال

پچھلے 5  چھ سال سے کافی پریشان ہوں، پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ اس ملک بلکہ پوری دنیا میں موبائل ، تصویرکارواج بہت زیادہ ہوگیا ہے ۔ہماری مسجد لاہور میں اہلِ سنت والجماعت(حنفی) کے ایک جیدعالم کے بیٹے پہلے کسی کوموبائل یا ویڈیوکیمراکے ذریعے نکاح کی ویڈیونہ بنانے دیتے تھے اب وہ اپنا بیان مسجد میں بیٹھ کرموبائل پرمحفوظ کرواتے ہیں اوریوٹیوب پراپ لوڈ کروادیتے ہیں! تمام مسالک کے جیدعلماءکایہی حال ہے!

سوال یہ ہے کہ ہم جیسے عام مسلمان کہاں جائیں؟ کیا قیامت کے دن ہمیں ان علماءکا گلا  پکڑنا پڑے گا! اب علمائے کرام اورمساجدمیں موبائل ویڈیوکا بننا ایک عام سی بات ہوگئی ہے،  کوئی روکتا ٹوکتا نہیں ہے،  بڑے بڑے علمائے کرام کے سامنے ویڈیوکیمرے لگے ہوتے ہیں اوروہ  صم بکم عمی  کی صورت دکھائی دیتے ہیں ۔خدارا علمائے کرام تمام مسالک کے اس طرف توجہ فرمائیں! اس موبائل اورویڈیوکے فتنے نے کتنی تباہی مچائی ہے ہم سب جانتے ہیں کہ اس نے کیا کیا گل کھلائے ہیں ۔

سوال صرف یہ ہے کہ علمائے حق اس مسئلے پرکیوں چپ ہیں وہ خود توکھلے عام تصویریں اترواتے ہیں اورویڈیوبنواتے ہیں، ایسے میں ایک عام مسلمان کیا کرے؟

جواب

جاندار کی تصویر سازی یا عکس بندی شرعاً ناجائز ہے، اور یہ تصویر سازی کے حکم میں ہے، خواہ کسی بھی ذریعہ سے بنائی جائے،  اور اس گناہ سے  ہر خاص و عام کو اجتناب کرنا چاہیے، اگر افادہ عامہ کے لیے دینی بیانات نشر کرنا ہوں  تو اس کی جائز صورت یہ ہے کہ کسی جاندار کی عکس بندی کے بغیر پھول بوٹوں، کھیت و دیگر غیر جاندار  اشیاء و مناظر کی عکس بندی کرکے بیک گراؤنڈ میں آڈیو بیان شامل کردیا جائے۔ فقط واللہ اعلم

نوٹ:

سائل کا جذبہ  قابلِ قدر ہے، البتہ بعض حوالوں سے وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے!  جہاں تک بات ہے تصویر سازی اور کیمرہ والے موبائل کے غیر شرعی استعمال کی، تو اس حوالے سے ہمارے ادارے  جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن اور دیگر بہت سے اداروں اور علماءِ کرام کی طرف سے مسلسل راہ نمائی جاری ہے، جامعہ کی ویب سائٹ پر فتاویٰ کا اجرا ہو یا دار الافتاء کے دستی جوابات ہوں یا ادارے کا ترجمان رسالہ ’’ماہنامہ بینات‘‘ ہو، یا جامعہ کے اساتذہ اور مساجد میں خطباء ہوں الحمد للہ وقتاً فوقتاً اس حوالے سے امت کی راہ نمائی کررہے ہیں،  چناں چہ درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:

انٹرنیٹ کے منفی استعمال کے نقصانات اور اُن سے بچنے کا طریقہ!

’’بینات‘‘ کے ایک بزرگ قاری کا فکر انگیز مکتوب

مذکورہ دونوں مضامین رواں سال ہی شائع ہوئے ہیں،  نیز اس کے علاوہ بھی بے شمار اہلِ حق علماءِ کرام جس عمل کو گناہ سمجھتے ہیں اس سے امت کو بچانے کی فکر میں مصروف ہیں، اور امت کو تباہی و نقصان سے بچانے کے حوالے سے ان کی کڑہن کسی طرح بھی اصلاح و تبلیغ میں مصروف عامۃ الناس سے کم نہیں ہے۔ گناہوں کی کثرت اور ماحول کا فساد و گندگی دیکھ کر کسی مسلمان کا فکر مند ہونا  انتہائی قابلِ تحسین جذبہ ہے، لیکن شیطان اور نفس کی فریب کاری کی وجہ سے بعض اوقات یہ جذبہ اعتدال سے نکل کر لاشعوری طور پر علماء کی تحقیر اور خود پسندی پر منتج ہوتاہے، یا شیطان دل میں یہ بات ڈال دیتا ہے کہ جب علماء گناہ سے نہیں بچتے تو ہم بھی کامیاب ہو ہی جائیں گے۔

لہٰذا پہلے تو یہ بات ذہن نشین کرلیجیے کہ جو کام گناہ ہے، وہ گناہ ہے، خواہ عالم کرے یا عام شخص، ہر ایک کو روزِ محشر خود جواب دہی کا سامنا کرنا ہوگا، اس لیے اگرخدانخواستہ خواص یا اکثریت بے عمل ہوجائے تو بھی جس شخص کو حق کا علم ہو اس پر حق کا اتباع لازم ہے، اکثریت کی بے راہ روی کی وجہ سے وہ معذور نہیں ہوگا۔ 

دوسری بات یہ کہ  جہاں ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خود بھی گناہوں سے بچے اور اپنے گرد و پیش اور اپنے زیرِ اثر افراد کو گناہوں سے بچانے کی فکر و سعی کرے (جیساکہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے حکم اور اس کی اہمیت پر مشتمل کئی آیات و احادیث دال ہیں)، اسی طرح یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اصلاح و تبلیغ کے حوالے سے مثبت طرزِ فکر وعمل اور اعتدال کو ہاتھ سے نہ جانے دے، حتی الوسع خود بھی گناہوں سے بچے اور دوسروں کو گناہوں سے بچانے کی سعی کرے اور جن لوگوں کو براہِ راست نہ سمجھا سکتاہو اُن کے بڑوں کے ذریعے حکمت کے ساتھ ان کی اصلاح کی کوشش کرے، اور کچھ نہ کرسکتاہو تو خلوصِ دل سے ان لوگوں کے لیے دعا گو رہے کہ اے اللہ ان لوگوں کو اپنی نافرمانی سے سچی توبہ اور نیک اعمال پر استقامت نصیب فرمائیے! نہ یہ کہ اپنی مجلسوں میں ان پر تبصرے کرے، ان پر طنز کرے، انہیں معمولی و کم تر اور خود کو بہتر سمجھے۔ مسلمان سے خیر خواہی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ 

 تیسری بات یہ بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ بلاشبہ موجودہ دور میں موبائل (خصوصاً کیمرے والے موبائل) کا غلط استعمال کثرت سے ہونے لگاہے اور یہ غلط استعمال فتنے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے، لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ حقیقت اور شرعی حکم ہے کہ موبائل کا استعمال مطلقاً ناجائز نہیں ہے، سادہ موبائل کے ضروری اور جائز استعمال میں تو کلام نہیں ہے، کیمرے والے موبائل کا ضروری اور جائز استعمال بھی موجود ہے، اسی وجہ سے اس کی خرید و فروخت کے جواز کا حکم دیا جاتاہے؛ لہٰذا مصلحین کو اس حوالے سے بھی اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں