بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للّٰہ وسلامٌ علٰی عبادہٖ الذین اصطفٰی
اس میں کوئی شک نہیں کہ انٹرنیٹ مختلف معلومات کے لیے ایک ایسا اہم ذریعہ بن چکا ہے، جس کے ذریعہ انسان مختصر وقت کے اندر معمولی لاگت سے بے شمار دینی، علمی، اقتصادی اور سیاسی معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حالاتِ حاضرہ سے بھی واقفیت حاصل کرسکتا ہے۔ اسی طرح اس کے توسط سے دینی اور عصری اداروں میں دفتری کاموں کے اندر سہولت اور آپس میں معلومات کے تبادلے سے متعلق بھی کافی آسانیاں پیدا ہوچکی ہیں، لہٰذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ مختلف میدانوں کے اندر انسان کے لیے بے شمار سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں بے شمار لوگ جن میں چھوٹے بڑے، مردوعورت، مال دار وغریب، پرہیزگار اور آزاد خیال ہر قسم کے لوگ شامل ہیں، کسی نہ کسی حد تک اس سے منسلک اور اس کے ثناخواں نظر آتے ہیں، اور اپنی مجالس میں اس کی خوبیاں گننے اور بیان کرنے سے نہیں تھکتے۔
البتہ ایک افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی ستائش کرنے والے اور اس پر فریفتہ ہونے والے اکثر حضرات اس کے نقصانات اور اُس کے منفی گوشوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے، جس کی وجہ سے وہ آہستہ آہستہ مختلف دینی، جسمانی اور نفسیاتی مشکلات کے شکار ہوجاتے ہیں۔ اسی حقیقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احقر نے اس مضمون کے اندر انٹرنیٹ کے غلط استعمال کے نقصانات بیان کرنے اور ان سے بچنے کا طریقہ بتانے کی کوشش کی ہے، تاکہ اس جدید آلہ سے منسلک لوگ اس کے نقصانات سے باخبر وہوشیار رہیں۔
میرے اس مضمون سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ میں انٹرنیٹ کے فوائد سے انکار کرتا ہوں، یا لوگوں کو اس کے استعمال سے کلی طور پر منع کرتا ہوں، اس لیے کہ ایک طرف تو اس کے بعض فوائد میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں اور دوسری طرف حالاتِ حاضرہ کے اندر موجودہ معاشرے کے افراد بظاہر اس بات کے لیے ہرگز تیار نہیں ہوں گے کہ اس کے استعمال کو مکمل طور پر ترک کریں، لہٰذا ان کو کلی طور پر منع کرنا لاحاصل ہوگا۔
چند سال قبل جب انٹرنیٹ کا استعمال خواص وعوام میں پھیلنے لگا اور اس سے منسلک آلات جیسے سمارٹ فون، لیپ ٹاپ وغیرہ لوگوں میں مشہور ہونے لگے، اور اس کا استعمال صرف دنیوی ضروریات اور عصری علوم تک محدود نہیں رہا، بلکہ علومِ دینیہ جیسے تفسیر وحدیث، فقہ واُصولِ فقہ، ادب و عقائد وغیرہ میں بھی لوگ اس سے استفادہ کرنے لگے، تو میرے چند احباب نے جو دینی علوم ومدارسِ اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے تھے، مجھ سے بار بار اصرار کے ساتھ کہا کہ تمہیں احادیثِ نبویہ کے ایک خادم اور دینی علوم کے ایک مدرس اور علمی تحقیقات سے دل چسپی رکھنے والے ایک فرد کی حیثیت سے اس آلہ سے استفادہ کرنا چاہیے، اس لیے کہ اس کے ذریعے مختصر وقت میں تمہیں احادیثِ نبویہ کے مراجع تک پہنچنے، اسانیدِ حدیث کی صحت وضعف معلوم کرنے اور دیگر علمی تحقیقات تک رسائی حاصل کرنے میں کافی مدد ملے گی اور ساتھ ساتھ یہ اصرار بھی کرتے رہے کہ تم انٹرنیٹ سے منسلک سمارٹ فون کا سیٹ اپنے استعمال میں رکھو، تاکہ جس وقت بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی علمی ضرورت پیش آئے گی، تم اس سے استفادہ کرسکو گے۔
ان حضرات کی باتیں سن کر میں ہمیشہ یہ جواب دیتا رہا کہ آپ جیسے تجربہ کار حضرات کی اس وضاحت کے بعد میرے لیے انٹرنیٹ کے بعض فوائد سے انکار کرنے کی تو کوئی گنجائش باقی نہیں رہی! تاہم مجھے ایک خوف ضرور لاحق ہے کہ انٹرنیٹ کے مفید ومضر گہرے سمندر میں اگر میں داخل ہوا تو کہیں اس کی خطرناک لہروں اور بے رحم مگرمچھوں کا شکار نہ ہوجاؤں، اور میں چونکہ تیراکی اور مگرمچھوں کے مقابلہ کرنے میں مہارت کا دعویدار بھی نہیں، اس لیے مجھے خطرہ ہے کہ اس گہرے اور خطرناک سمندر میں داخل ہونے کے بعد اس کی لہروں میں غرق ہوکر یا اس کے مَگرْمَچھوں کا لقمہ بن کر ساحل تک واپسی کا موقع نہیں پاسکوں گا۔
اللہ تعالیٰ کی توفیق سے احقر نے اپنے زمانۂ طالب علمی سے لے کر زمانۂ تدریس تک ہمیشہ اپنے والدین اور اساتذۂ کرام اور مشایخ عظام کی نصیحتوں کو یاد رکھنے اور ان کے اندازِ تربیت کو حتی الامکان اپنانے کی کوشش کی ہے، اور آج تک اپنی غفلتوں کے باوجود ان کی گراں قدر نصیحتوں اور مخلصانہ اندازِ تربیت کے ایسے فوائد وثمرات مجھے نظر آتے ہیں جنہیں دیکھ کر ان کے لیے غائبانہ طور پر دل کی گہرائیوں سے دعائیں نکلتی ہیں۔ میرے والدین مکرمین اور اساتذۂ کرام و مشایخ عظام (جن میں سرِفہرست میرے مرشد ومکرم استاذ فقیہ الامت حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہٗ سابق رئیس دارالافتاء دارالعلوم دیوبند اور میرے محترم اُستاذ حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری دامت برکاتہم شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند ہیں) کی پر اَثر نصیحتوں میں سے اس مضمون کی مناسبت سے صرف ایک قیمتی نصیحت کا خلاصہ پیش کیا جارہا ہے:
’’ ایسے آلاتِ جدیدہ کو جو مختلف الجہات یعنی فوائد ونقصانات دونوں پر مشتمل نظر آتے ہوں، اس وقت تک استعمال کرنے کی کوشش نہ کریں، جب تک ان کے مثبت ومنفی دونوں گوشوں پر غور اور دونوں کے درمیان موازنہ نہ کریں، اس لیے کہ انسان جلد باز واقع ہوا ہے، وہ مثبت گوشوں سے جلد متأثر ہوتا ہے اور منفی گوشوں سے غفلت برتتا ہے، چنانچہ ذرائع ابلاغ واشتہارات کے ذریعہ جب کسی نئی چیز کے فوائد اس کے علم میں آتے ہیں تو وہ فوراً اس کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس کے منفی گوشوں اور نقصانات پر غور کرنے کی کوشش نہیں کرتا، جس کے نتیجے میں وہ آہستہ آہستہ اس کے نقصانات کا شکار ہوجاتا ہے اور اس کو اندازہ بھی نہیں ہوتا، اور بالآخر بہت بڑا نقصان اُٹھاتا ہے۔‘‘
۱۴۳۳ھ مطابق ۲۰۱۲ء کو افریقی ملک ’’زامبیا‘‘ کے شہر ’’لوساکا‘‘ میں واقع ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ کے منتظمین حضرات (جو جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے فضلاء ہیں) کی طرف سے مجھے دعوت دی گئی کہ ’’جامعہ اسلامیہ‘‘ کا سالانہ اجلاس ماہِ شعبان ۱۴۳۳ھ کو حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری دامت برکاتہم العالیہ شیخ الحدیث وصدر المدرسین دارالعلوم دیوبند کی صدارت میں منعقد ہونے والا ہے، آپ کو بھی اس اجلاس میں شرکت کی دعوت دی جارہی ہے۔ احقر نے اس موقع کو غنیمت وسعادت سمجھ کر دعوت قبول کرلی، اس لیے کہ اس بہانے تقریباً گیارہ سال بعد حضرت الاستاذ مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری مدظلہم العالی سے ملاقات اور ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملنے والا تھا، چنانچہ شعبان کے شروع میں احقر ’’زامبیا‘‘ پہنچ گیا۔
’’زامبیا‘‘ پہنچنے کے بعد تقریباً دس روز تک مسلسل حضرت کی خدمت میں رہنے اور ان کے علمی وتربیتی بیانات اور مشفقانہ ہدایات سے استفادے کا موقع ملتا رہا، اس دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ ایک دفعہ میزبان حضرات کی گاڑی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچنے کے لیے حضرت الاستاذ روانہ ہونے والے تھے، میزبانوں نے حسبِ معمول میرے لیے بھی اُسی گاڑی میں بیٹھنے کا انتظام کرلیا، حضرت الاستاذ سامنے والی سیٹ پر ڈرائیور کے بغل میں تشریف فرما ہوئے اور میں ان کے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھ گیا اور گاڑی روانہ ہوگئی۔
تھوڑی دیر کے بعد گاڑی ہی کے اندر میرے زیرِاستعمال سادے موبائل فون کی گھنٹی بجنے لگی، میں نے فون وصول کرکے فون کرنے والے سے مختصر بات کی اور فون بند کردیا، حضرت الاستاذ نے فون کی گھنٹی کی آواز اور میری گفتگو دونوں سن لیں، میری گفتگو ختم ہونے کے بعد اپنے پیچھے سے میری طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا: ’’ذرا اپنا موبائل فون مجھے دکھادو‘‘ میں نے فوراً اپنا موبائل ان کی خدمت میں پیش کیا اور سمجھ گیا کہ حضرت الاستاذ اس موبائل فون کی نوعیت کو دیکھ کر یہ جانچنا چاہتے ہیں کہ کیا ان کے اس حقیر شاگرد نے اُن سے جدائی کے بعد اُن کی نصیحتوں کو خداناخواستہ فراموش کرکے پرکشش آلاتِ جدیدہ کو ان کے انجام پر غور کیے بغیر استعمال کرنا شروع کردیا ہے؟ یا آج تک اللہ کی توفیق سے بیدارمغزی کے ساتھ سادگی کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے محسنین کی نصیحتوں کو یاد کیے رکھا ہے؟
بہرصورت! حضرت الاستاذ نے جب میرے سیدھے سادے موبائل فون کا معائنہ فرماتے ہوئے اپنے ہاتھوں میں اُسے اُلٹ پلٹ کر دیکھا اور ان کو اطمینان ہوا کہ ایک بالکل سیدھا سادا اور انٹرنیٹ سے غیرمنسلک سستا سا موبائل فون ہے، تو زباں سے کچھ کہے بغیر مجھے واپس کردیا، البتہ ان کے چہرے پر اطمینان کی علامت بکھری ہوئی نظر آرہی تھی، جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ مطمئن ہوگئے۔ حضرت الاستاذ کے اطمینان کو دیکھ کر دل دل میں میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی، اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنے اُستاذِ محترم کی قیمتی نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرماتے ہوئے مجھے شرمندگی سے بچایا۔
الغرض! اپنے بڑوں کی تربیت کی برکت سے میں نے دوستوں کے اصرار کے باوجود اپنے آپ کو انٹرنیٹ اور اس سے منسلک موبائل فون کے استعمال سے دور رکھا اور اپنی علمی ضرورتوں اور تحقیقی کاموں کے لیے تسلسل کے ساتھ پرانے طریقوں سے کام لیتا رہا، اور اس مضمون کو قلمبند کرنے کی تاریخ (۱۴-۰۴-۱۴۴۰ھ مطابق ۲۲-۱۲-۲۰۱۸ء) تک اپنے پاس ایک معمولی اور سادہ موبائل فون رکھنے پر اکتفا کرتا رہا، البتہ انٹرنیٹ کے مشہور ومعروف فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات سے واقف ہونے کی کوششوں میں بھی لگارہا، چنانچہ باخبر اور تجربہ کار وبااعتماد ساتھیوں اور دوستوں سے اس کے نقصانات اور مضر اثرات سے متعلق معلومات حاصل کرتا رہا، اسی طرح خود بھی انٹرنیٹ سے منسلک ایسے افراد کے احوال وعادات پر گہرائی کے ساتھ غور کرتارہا جو میرے جاننے والے اور وقتاً فوقتاً ملاقات کرنے والے تھے، تاکہ مجھے یہ اندازہ ہوجائے کہ ان کی عادتوں اور خصلتوں میں انٹرنیٹ کے استعمال کے بعد بہتری نظر آرہی ہے یا خدانخواستہ کچھ کمزوری؟ یا پھر ان کی عادات اپنی سابقہ حالت پر برقرار رہتی ہیں؟ تاکہ مذکورہ حالات جاننے کے بعد مجھے انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق فیصلہ کرنے میں آسانی رہے۔
انٹرنیٹ کے فوائد ونقصانات معلوم کرنے اور ان پر غور کرنے کے دوران اگرچہ میں اس کے مثبت گوشوں سے استفادہ تو نہ کرسکا، جب کہ میرے بعض دوست واحباب نے ان گوشوں سے اچھا خاصا استفادہ کیا، تاہم میں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنی توفیق سے اس کے نقصانات ومفاسد سے بچاتے ہوئے ان کو میرے سامنے واضح کردیا، تاکہ ان کا سامنا کرنے سے پہلے ان سے بچنے کی فکرکروں، اور اپنی اولاد ومتعلقین کو بھی ان نقصانات سے آگاہ کرنے کی کوشش کروں۔
انٹرنیٹ کے فوائد تو زبان زدِ خاص وعام ہوچکے ہیں، اس لیے انہیں تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، اجمالی طور پر مضمون کے شروع میں ان کا ذکر آبھی چکا ہے، البتہ اس کے نقصانات میں سے چند بنیادی نقصانات کا تذکرہ اور ان سے بچنے کا طریقہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں، تاکہ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو انٹرنیٹ سے منسلک ہیں یا بعد میں منسلک ہونے والے ہیں، وہ ان نقصانات کو سمجھیں اور ان سے بچنے کی فکر کریں:
انٹرنیٹ کا پہلا نقصان یہ ہے کہ وہ بے حیائی وعریانیت پھیلانے ، فسق وفجور کے مناظر پیش کرنے کا سب سے بنیادی اور سستا ذریعہ ہے، اس کے ذریعہ اخلاقی ودینی تباہی ، نوجوان مرد وخواتین کی بے راہ روی وگمراہی، شروفساد کی وادیوں میں ان کی ہلاکت اور اسلامی اقدار وپاکیزہ روایات سے ان کی لاتعلقی عام ہوتی جارہی ہے! کتنے والدین ایسے ہیں جو انٹرنیٹ سے منسلک ہونے کے بعد اپنی اولاد کی گمراہی کا رونا رورہے ہیں؟! اور کتنی نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جنہیں اس انٹرنیٹ کے توسط سے سبزباغ دکھایا گیا اور وہ دھوکہ کھا کر اپنے گھروں سے بھاگ گئیں؟! کچھ عرصے تک دھوکہ بازوں کی مذموم خواہشات کا نشانہ بن کر پھر بے یارومددگار چھوڑی گئیں، جس سے دنیا وآخرت دونوں کا نقصان اُنہیں اُٹھانا پڑا۔
وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں وقت کی اہمیت کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اس کی اور اس کے مختلف اجزاء کی قسمیں کھائی ہیں! چنانچہ کہیں تو زمانے کی قسم کھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وَالْعَصْرِ‘‘ (زمانے کی قسم) اور کہیں رات اور دن کی قسم کھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وَالَّیْلِ إِذَا یَغْشٰی وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلّٰی‘‘ (رات کی قسم! جب وہ چھا جائے اور دن کی قسم! جب اس کی روشنی پھیل جائے) اور کہیں چاشت کی قسم کھاتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’وَالضُّحٰی‘‘ (چاشت کی قسم!)ا سی طرح اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کودین کی بنیادی عبادات جیسے: نماز وروزہ اور حج ادا کرنے کا حکم دیتے ہوئے ان کے لیے اوقات بھی متعین کردیئے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ شریعت کی روشنی میں وقت کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ وقت کی اہمیت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اگر انسان اس سے استفادہ کرنے اور اس کو فضولیات وعبثیات میں خرچ کرنے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے تو بڑے مثبت نتائج حاصل کرسکتا ہے، اور اگر ا س کو بے فائدہ اور گھٹیا کاموں میں خرچ کرتا رہا تو وہ ایک بڑے قیمتی سرمائے سے محروم ہو جائے گا۔
انٹرنیٹ کے نقصانات میں سے دوسرا نقصان یہ ہے کہ اس سے منسلک اکثر لوگوں کے قیمتی اوقات ا س کے استعمال کی وجہ سے ضائع ہوجاتے ہیں! وہ گھنٹوں تک بے حس وحرکت ہوکر اس کی اسکرین پر نظریں جماکربیٹھتے ہیں، اور اکثر غیر ضروری بلکہ نقصان دہ اُمور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ایک ہی نشست میں اپنے قیمتی اوقات میں سے ایک اچھا خاصا حصہ ضائع کردیتے ہیں اور اُن کو اندازہ تک نہیں ہوتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال سے انسان ذہنی تناؤ اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوکر ہائی بلڈپریشر، شوگر، جسمانی کاہلی وسستی اور وزن وموٹاپے کی زیادتی اور دیگر قلبی واعصابی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے، اس لیے کہ جب انسان طویل وقت تک ایسی حالت میں اسکرین کے سامنے بیٹھا ہوا ہوتا ہے کہ صرف دماغ کے علاوہ اس کے دیگر اعضاء ساکت ہوں تو سارا دباؤ دماغ ہی پر ہوتا ہے، جسے وہ برداشت نہیں کرسکتا اور تناؤ کا شکار ہوجاتاہے، اور باقی اعضاء طویل وقت تک حرکت نہ کرنے کی وجہ سے دیگر امراض کے شکار ہوجاتے ہیں!
میرے ایک مخلص دوست جناب حافظ ڈاکٹر محمد سمیر قریشی صاحب جو ذہنی امراض کے متخصص اور ڈاؤیونیورسٹی کراچی (Dow Univesity Karachi) کے پروفیسر ہیں، انہوں نے بتایا کہ بعض ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی کثرتِ استعمال سے وہ بیماریاں پیدا ہوسکتی ہیں جو منشیات کے استعمال سے پیدا ہوتی ہیں، اس لیے کہ اس کے زیادہ استعمال سے جسم کے اندر وہی مضر کیمیاوی مواد پیدا ہوجاتے ہیں جو منشیات کے استعمال سے پیدا ہوتے ہیں اور وہ مواد انسان کو اس کے مزید استعمال کرنے پر مجبور کرتے ہیں جس کی وجہ سے وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
احقر جس مسجد میں امامت وخطابت کی ذمہ داری انجام دے رہا ہے، ا س مسجد کے نمازی حضرات اور دیگر متعلقین میں سے مختلف لوگوں نے بتایا کہ اُن کے بچے انٹر نیٹ کی کثرتِ استعمال کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کافی پیچھے رہ گئے، پڑھنے اور مطالعہ کرنے سے ان کا تعلق کمزور پڑگیا، اس لیے کہ وہ اپنا اچھا خاصا وقت انٹرنیٹ سے منسلک لیپ ٹاپ اور موبائل فون کی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر خرچ کرتے ہیں اور جب تھک جاتے ہیں تو باقی وقت کھیل کود، کھانے پینے اور سونے میں خرچ کرتے ہیں، پڑھنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں بچتا۔
انٹر نیٹ دوسروں کی معلومات چُرالینے کا ذریعہ بھی بن گیا ہے، چنانچہ بعض لوگ اس کے ذریعے دوسروں کی خفیہ معلومات تک جو اُن کے خصوصی اُمور یا بینک کے حسابات سے متعلق ہوں رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر کبھی تو ان کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی کرتے ہیں اور کبھی بینکوں سے اُن کی رقوم چُرالیتے ہیں! اسی طرح کچھ لوگ انٹرنیٹ کے ذریعے مختلف علماء کی تالیفات ومضامین تک آسانی کے ساتھ رسائی حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اُن میں کچھ ردّ وبدل کرکے اپنی طرف منسوب کرتے ہیں، تاکہ وہ محنت وجد وجہد کے بغیر مصنّفین کی فہرست میں شامل ہوجائیں۔
چند دفعہ خود میرے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا کہ کوئی صاحب ایک علمی مسوّدہ لے کر اس دعوے کے ساتھ میرے پاس تشریف لائے کہ وہ مسوّدہ اُن کی تصنیف ہے اور وہ مجھ سے اس پر تقریظ لکھوانا چاہتے ہیں! مجھے کچھ قرائن سے اندازہ ہوگیا کہ یہ مسوّدہ اُن ہی کی محنتوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ انہوں نے اِدھر اُدھر سے دوسروں کے مضامین لے کر تیار کرلیا ہے، لہٰذا میں نے اپنے اطمینان کے لیے اس کے اوراق کو پلٹتے ہوئے اُن سے مختلف مقامات کی کچھ تشریح کرنے کی درخواست کی! لیکن افسوس کہ وہ تشریح نہ کرسکے، میں نے کہا کہ: بتائیے! میں ایسی کتاب کی تقریظ لکھنے کی جرأت کیسے کرسکتا ہوں جس کے مصنف اس کی تشریح کرنے سے عاجز ہوں؟ وہ لاجواب ہوکر خاموشی سے واپس تشریف لے گئے۔
انٹرنیٹ کے زیادہ استعمال کی وجہ سے اولاد و والدین، میاں بیوی اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے درمیان دوریاں پیدا ہورہی ہیں جس سے اُن کے آپس کے حقوق متأثر ہوکر ناچاقیاں جنم لے رہی ہیں، اور میاں بیوی کے درمیان تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں! یہاں تک کہ بعض دفعہ طلاق تک نوبت پہنچتی ہے۔ اور اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ خاندانی جھگڑے، قریبی رشتہ داروں اور میاں بیوی کے درمیان تلخیاں اور دوریاں پیدا ہونا بڑی ناکامی اور محرومی کی بات ہے۔
انٹرنیٹ کے ذریعے دینی ودنیوی موضوعات سے متعلق بڑے پیمانے پر غلط معلومات کی اشاعت کا کام بھی کیا جارہا ہے۔ باطل تحریکات مسلمانوں کے ذہنوں میں شکوک وشبہات پیدا کرنے، ان کے عقائد کو بگاڑنے اور اپنے باطل عقائد ونظریات کو پھیلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ اسی طرح خود مسلمانوں میں سے بعض کم علم یا باطل افکار کے حامل لوگ تفسیر وحدیث وفقہ اور دیگر دینی علوم سے متعلق ایسی غلط معلومات انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلاتے ہیں جنہیں درست سمجھ کر ایک عام مسلمان دینی موضوعات سے متعلق غلطیوں کا شکار ہوجاتا ہے، لہٰذا! جب تک کسی مستند ذریعے سے تصدیق نہ کی جائے اس وقت تک صرف انٹرنیٹ کی معلومات پراعتماد نہ کیاجائے۔
انٹرنیٹ کے نقصانات میں سے مذکورہ بالا ایسے بنیادی سات نقصانات ہیں جن سے بچنے کے لیے ہرمسلمان مرد وخاتون کو ہوشیار رہنا چاہیے۔
اب ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے مندرجہ ذیل چند ایسی باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ اگر مسلمان مرد وخواتین ان باتوں کو ذہن نشین کرتے ہوئے ان پر عمل کریں گے، تو اُمید ہے کہ انٹرنیٹ کے نقصانات سے بچ سکیںگے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہرمسلمان مرد وخاتون کو نگاہ کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
’’قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ أَبْصَارِہِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَہُمْ ذٰلِکَ أَزْکٰی لَہُمْ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَایَصْنَعُوْنَ، وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ۔‘‘ (النور:۳۰-۳۱)
ترجمہ: ’’اے پیغمبر! ایمان والوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے، بلاشبہ جو کچھ یہ کرتے ہیں اللہ اس سے باخبر ہے، اور ایمان والی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔‘‘
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدنگاہی کی تباہ کاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے:
’’النظرۃ سہمٌ من سہام إبلیس مسمومۃٌ۔‘‘ (رواہ الحاکم فی المستدرک، ج:۴،ص:۳۴۹)
ترجمہ:’’بدنگاہی شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر ہے۔‘‘
لہٰذا !ہر مسلمان مرد وخاتون کے لیے ضروری ہے کہ مندرجہ بالا نصوص کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بدنگاہی اور بے حیائی وفساد کے مناظر سے اجتناب کرے، کیا خوب کہا ہے ایک عرب شاعر ابومحمد عبد اللہ بن محمد اَندلسی قحطانی نے اپنے قصیدہ نونیہ میں:
وإذا خلوتَ برِیبۃ فی ظلمۃ
والنفس داعیۃ إلی الطغیان
فاستحي من نظر الإلٰہ وقل لہا
إن الذی خلق الظلام یراني
ترجمہ:’’جب تمہیں تنہائی میں کسی تہمت والے کام کا موقع ملے اور تمہاری خواہش تمہیں گناہ کی دعوت دے رہی ہو تو ایسی حالت میں تم اللہ کی غیبی نگاہ سے شرم کرتے ہوئے اپنی خواہش سے کہو کہ جس ذات نے تاریکی پیدا کی ہے، وہ مجھے دیکھ رہی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے مسلمان بندوں کو جہاں عبادت کرنے کا حکم دیا ہے، وہاں اُن کے رشتہ داروں اور زیارت کرنے والوں اور خود اُن کی اپنی ذات کے حقوق کو بجالانے کا بھی حکم دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں:
’’إِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا‘‘ (بے شک مؤمنوں پر مقررہ اوقات میں نماز فرض ہے)، اور فرماتے ہیں: ’’وَأٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ‘‘ (اور رشتہ دار کو اس کا حق دو)۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے فرمایا:
’’فإن لجسدک علیک حقًا وإن لعینیک علیک حقًا، وإن لزوجک علیک حقًا وإن لزورک علیک حقًا‘‘ (رواہ البخاری، ج:۱، ص:۲۶۵)
ترجمہ: ’’تیرے جسم کا تیرے اوپر حق ہے، اور تیری آنکھوں کا تیرے اوپر حق ہے، اور تیری بیوی کا تیرے اوپر حق ہے، اور تیرے زائرین کا تیرے اوپر حق ہے۔‘‘
لہٰذا ہر مسلمان کے ذمے یہ ضروری ہے کہ ان تمام حقوق کا خیال رکھے اور اپنا نظام الاوقات اس طرح بنادے کہ حقوق اللہ اور حقوق العبادسب کے سب اپنے اپنے اوقات میں ادا ہوتے رہیں، اور انٹرنیٹ کے بے جا استعمال سے اپنا قیمتی وقت ضائع نہ کرے اور نہ ہی اپنی صحت کو برباد کرے، اس لیے کہ صحت وفراغت اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ہیں، اگرچہ اکثر لوگ اُن کی قدر نہیں کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث ملاحظہ ہو:
’’عن ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس: الصحۃ والفراغ۔‘‘ (رواہ البخاری، ج:۲،ص:۹۴۹)
ترجمہ: ’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اللہ کی نعمتوں میں سے دو نعمتیں ایسی ہیں کہ بہت سے لوگ اُن کی ناقدری کرتے ہوئے دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں، ان میں سے ایک نعمت صحت وتندرستی اور دوسری نعمت فرصت وفراغت ہے۔‘‘
والدین اور سرپرستوں کے ذمے ضروری ہے کہ اپنی اولاد اور بچوں کو انٹرنیٹ کے نقصانات اور منفی گوشوں سے اچھی طرح آگاہ کریں، اور اُنہیں ان نقصانات سے بچنے کی تلقین کریں، اور خلوتوں میں ان کی سرگرمیوں کی کڑی نگرانی کریں، ان کو اس طرح آزاد ہرگز نہ چھوڑیں کہ وہ جو چاہیں کریں، تاکہ وہ شر وفساد کی خطرناک وادیوں میں ہلاکت سے محفوظ رہیں۔
اگر کسی کا اپنے اوپر یہ اعتماد نہیں کہ وہ انٹرنیٹ کے استعمال کی صورت میں اس کے منفی گوشوں سے بچ سکتا ہے تو ایسے شخص کے لیے شریعت کی روشنی میں اس کا استعمال تنہائی میں جائز نہیں، لہٰذا وہ نیک لوگوں کی صحبت اختیار کرے اور بوقت ضرورت صرف مثبت اندازمیں اپنے بزرگوں یا نیک ساتھیوں کی موجودگی میں اُسے استعمال کرے۔ اپنے اس مضمون کے آخر میں شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم کا ایک شعر ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں اور بالخصوص ان کی نئی نسل کو اپنے دین پر استقامت عطا فرماتے ہوئے دشمنانِ اسلام کے پھندوں اور شیطان کے فریبوں سے محفوظ فرمائے۔
وصلّٰی اللّٰہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد وعلٰی آلہٖ وصحبہٖ أجمعین