بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

بینات

 
 

’’بینات‘‘ کے ایک بزرگ قاری کا فکر انگیز مکتوب

’’بینات‘‘ کے ایک بزرگ قاری کا فکر انگیز مکتوب

 

ماہنامہ ’’بینات‘‘ (جمادی الاخریٰ ۱۴۴۰ھ مطابق مارچ۲۰۱۹ء) میں مفتی عبد الرؤف غزنوی صاحب دامت برکاتہم کا مضمون ’’انٹرنیٹ کے منفی استعمال کے نقصانات اور اُن سے بچنے کا طریقہ‘‘ بطور اداریہ شائع ہوا۔ الحمد للہ! قارئین کرام نے بروقت اصلاح اور درست تنبیہ کی واضح افادیت محسوس کی۔ اس حوالے سے ’’بینات‘‘ کے ایک محترم وبزرگ قاری جناب مشتاق احمد انصاری صاحب کا خط موصول ہوا، نیک جذبات کے اظہار کے ساتھ بجائے خود کئی مفید نکات وفوائد پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے افادۂ عام کے لیے نذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔
 واضح رہے کہ ماہنامہ ’’بینات‘‘ میں قارئینِ کرام کے خطوط کی اشاعت کے لیے صفحات مختص نہیں ہیں۔ [ادارہ]

{مکتوب}

حضرت مفتی عبد الرؤف غزنوی مدظلہٗ

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

یہ خاکسار ۱۹۸۰ء سے ’’بینات‘‘ کا مطالعہ انتہائی محبت وعقیدت سے کررہاہے۔ جمادی الاخریٰ ۱۴۴۰ھ کے پرچہ میں آپ کا مضمون انٹرنیٹ کے بارہ میں پڑھا۔ ’’زامبیا‘‘ کا سفر اور ہمیشہ کی طرح علماء سے آپ کی عقیدت اور محبت کی باتوں نے دل پر عجیب سرور قائم کیا۔ انٹرنیٹ کے سات نقصانات مجھ کوڑھ مغز کی سمجھ میں آئے، لیکن انٹرنیٹ سے بچنے کا راستہ سمجھ میں نہیں آیا۔ اپنا مختصر تعارف یہ ہے کہ عمر تقریباً ۸۰ سال ہوگی۔ مطالعہ کے شوق کا یہ عالم ہے کہ کھانا بھلے ہی نہ ملے، لیکن کتب ملیں، جرمن بحری جہاز پر ریڈیوآفیسر ۲۰ سال رہا اور الیکٹرونکس کے تقریباً ہر شعبہ سے تعلق رہا۔ الحمد للہ! قوتِ ارادی اللہ تعالیٰ نے اچھی عطا کی ہے اور انٹرنیٹ سے بہت دور ہوں۔
۱۹۷۷ء میں جہاز جب جدّہ گیا تو عمرہ کی سعادت نصیب ہوئی۔ بیت اللہ کے چاروں طرف بڑے بڑے ’’نوٹس بورڈ‘‘ دیکھے جن پر چار زبانوں میں اطلاع تھی کہ تصویر حرام ہے، کیمرے بیت اللہ میں لے کرنا جائیں۔ ہر باب (دروازے) پر محافظ اندر جانے والوں کے سامان کو چیک کرتے تھے، جس کے پاس کیمرہ ہوتا تھا، اس کو واپس کردیتے تھے، لیکن مخالفینِ اسلام سخت محنت میں لگے رہے اور آخرکار موبائل میں کیمرہ نصب کرکے ایک دو نہیں ہزاروں لاکھوں کیمرے بیت اللہ میں پہنچا ہی دیئے۔
۱۹۲۰ء کے آس پاس اُن مخالفین نے ترکی میں اتاترک کی مدد سے ترکی زبان کا رسم الخط انگریزی میں کردیا تھا۔ پاکستان میں بھی ۱۹۵۰ء کی دہائی میں ان مخالفین نے اردو کا رسم الخط انگریزی میں کرنے کی مہم چلائی تھی اور مولوی عبد الحقؒ کی تحریک نے ان کی مہم ناکام کردی۔ لیکن اس محاذ پر بھی وہ لوگ محنت کرتے رہے اور اب موبائل میں اردو کے پیغامات انگریزی رسم الخط میں آرہے ہیں اور اب محنت کرکے انٹرنیٹ کا وبال لے آئے ہیں اور یہ ایسا ’’جن‘‘ ہے جو اُن کے بھی اب قابو میں نہیں ہے جو اس کو بوتل سے باہر لائے تھے اور اس کی وجہ سے مسلمان کے لیے ایمان محفوظ کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ چونکہ الحمد للہ! آنجناب کو انٹرنیٹ کی خرافات بہت کم معلوم ہیں، اس لیے چند مزید خرافات کا ذکر کرتا ہوں: اس میں پانچ سال کے بچے سے لے کر ۱۰۰ سال کے بوڑھے تک کو اپنے جال میں پھنسائے رکھنے کے لیے ایسے پروگرام ہیں کہ جب تک ’’آہنی قوتِ ارادی‘‘ نہ ہو اُس وقت تک ایک بار بچہ یا بوڑھا ان کے جال میں آگیا تو نکل نہیں سکتا۔ اس میں ہزاروں نوعیت کے کارٹون، ہزاروں طرح کے کھیل، نیم عریاں اور عریاں تصاویر، فلمیں، عریاں فلمیں، گانے، قوالیاں، لاکھوں طب کے طریقے، ٹوٹکے، لاکھوں انجینئرنگ کی باتیں، تمام مذاہب کی لاتعداد کتب، ہزاروں فیشن کے طریقے، آدمی کس طرح لڑکیوں کو پھانسے اور لڑکیاں کن طریقوں سے لڑکوں سے رابطے رکھیں، ان کو اپنے جال میں پھانسیں اور کس طرح جھوٹی سچی ویڈیو بناکر انٹرنیٹ پر ڈالی جائے اور یہی نہیں ان کو انٹرنیٹ کی طرف سے اچھی خاصی رقم دی جاتی ہے۔ طوالت کی وجہ سے اور عرض نہیں کررہا۔
 انٹرنیٹ سے بچنے کا جو طریقہ اس ناکارہ کے ذہن میں آیا، وہ عرض کرتا ہوں:
میرے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی قدس سرہٗ (میں اُن پر قربان) کے بارہ میں مولانا سعید احمد اکبر آبادیؒ کتاب ’’شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ - ایک سیاسی مطالعہ‘‘ مرتبہ ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہان پوری، صفحہ: ۷۶ پر لکھتے ہیں: 
’’مولانا محمد الیاس کاندھلویv نے ایک مرتبہ عالمِ جذب میں مولوی ظہیر الحسن -ایم اے- کاندھلوی مرحوم سے ان کے مکان پر فرمایا کہ میاں ظہیر! لوگوں نے مولانا حسین احمد کو پہچانا نہیں، خدا کی قسم! ان کی روحانی طاقت اس قدر بڑھی ہوئی ہے کہ اگر وہ اس طاقت سے کام لے کر انگریزوں کو ہندوستان سے باہر نکالنا چاہیں تو نکال سکتے ہیں۔‘‘
امام مالکv سے جب مسلمانوں کے زوال کا سبب اور عروج کے طریقے کے بارہ میں پوچھا گیا تو فرمایا تھاکہ :
’’زوال کا سبب علماء حق کا فقدان اور علماء سوء کی کثرت ہے۔‘‘ 
اور اصلاح کے طریقے کے بارہ میں فرمایا تھا کہ:
 ’’وہی طریقہ اختیار کیا جائے جس سے اُمت کی اصلاح ماضی میں ہوئی تھی۔‘‘ 
آپ خوب جانتے ہیں کہ صحابہؓ   کو شراب بہت زیادہ عزیز تھی، لیکن ایک تو نبی a کے روحانی وجود کا اثر، پھر آپ a کی محنت سے یہ برائی ان کے معاشرہ سے کیسے ختم ہوئی!!!
آج انٹرنیٹ قوم کو جی جان سے زیادہ عزیز ہوگیاہے اور اس سے نجات دلانے کا مجھ ناکارہ کے ذہن میں ایک ہی طریقہ آیا ہے کہ ہزاروں لاکھوں فقہاء، علماء حق، حکماء جو وارث ہیں نبوت کے کارِ خیر کے، اپنی انبیاء والی روحانی قوت بڑھا کر قوم پر اپنی روحانی قوت کا اثر ڈالیں اور مولانا محمد الیاسؒ کی دعوت وتبلیغ میں عملی طور سے جڑ کر کام کریں، جس کے بارہ میں میرے حضرت بنوریv نے فرمایا: 
’’مولانا الیاسؒ کی بس یہی تحریک اُمت کی اصلاح کی آخری کرن ہے۔‘‘ 
                                     (بینات، جمادی الاولیٰ ۱۴۴۰ھ، ص:۲۰)
 جب تک انبیاء o والی محنت سے فقہاء، علماء، حکماء کا روحانی اثر اُمت میں خلط ہوکر اُمت کے دلوں میں خوفِ خدا اور آخرت پر غیر متزلزل یقین اور گناہوں سے شدید نفرت اور اعلیٰ قوتِ ارادی بیدار نہیں کریںگے قوم موبائل اور انٹرنیٹ نہیں چھوڑ سکتی۔ انٹرنیٹ پر صرف گناہ ہی گناہ ہیں، خیر یا نیک کام کا ایک فریب ہے جس میں ہمارے علماء بھی بڑی خوشی سے لگے ہوئے ہیں۔ الا ماشاء اللہ! میرے حضرت شیخ الہند v فرماتے ہیں:
 ’’جو لوگ موجودہ زمانے کی ضرورت سے الگ رہ کر مسجد اور مدرسہ کی چار دیواری میں رہنے کو دین کی خدمت سمجھتے ہیں، وہ اسلام کے نام پر کلنک کا داغ ہیں۔‘‘ 
                                                 (بینات، جمادی الاولیٰ ۱۴۲۶ھ، ص: ۲۴) 
اور میرے حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیv کے بقول :
’’افسوس یہ ہے کہ علماء نے عوام کے پاس جانا اور ان میں خلط ملط پیدا کرکے ان کی اصلاح کرنا تقریباً بالکل ہی چھوڑ دیا ہے، یہ بالکل غلط ہے۔‘‘     (مکتوبات شیخ الاسلام ،ج:۱،ص : ۲۵۹) 
تبلیغی ساتھی نے ایک واقعہ بتایا کہ : 
’’ان کی سہ روزہ کی تشکیل کراچی کی آگرہ تاج کالونی میں ہوئی اور حضرت مولانا جمشید مرحوم ومغفور بھی ہم میں آملے اور ہمارے ساتھ تین دن رہے، لیکن پورے تین دن مولانا نے دسترخوان نہیں لگنے دیا، ساتھیوں سے فرماتے تھے: ایک ایک دو دو کرکے باورچی خانہ میں جاؤ اور کھا کر جلدی باہر آؤ اور کام کرو۔‘‘
 مولانا شیخ الحدیث بھی تھے اور عالم بھی اور عام انسانوں کی طرح عوام میں گھل مل گئے تھے۔
جب میں بعض ائمہ حضرات، ہر عمر کے بوڑھے جوان کو مسجد میں موبائل کے ساتھ دیکھتا ہوں تو بہت ہی دل کڑھتا ہے۔ آپ یقین فرمائیں اس منحوس ایجاد نے مسلمان کو گردن سے پکڑ رکھا ہے اور اس سے نجات اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک ہزاروں علماء حق (آپ جیسے) خود اپنے موبائل بالائے طاق رکھ کر عوام میں گھل مل نہ جائیں اور یہ ناممکن نظر آتا ہے (اللہ کرے میں غلط ہوں)۔
 ہم ایجادات میں ان کا مقابلہ نہیں کرسکتے اور نہ ہم کو کرنا چاہیے اور خدا ناخواستہ کر بھی لیں، تب بھی ان کو شکست نہیں دے سکتے، جب تک اللہ عز وجل ہمارے ساتھ نہ ہوںاور ہم نے اللہ عز وجل کو چھوڑا ہوا ہے۔ 
سمع خراشی کی بہت بہت معذرت! اللہ عزوجل آپ کو تاعمر صحت مند رکھے، ہر طرح کے دشمنوں کے شروفساد سے محفوظ رکھے، آمین! 
                                                            فقط خاکسار 
                                                         مشتاق احمد انصاری
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین