بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر قانونی تجاوزات اور قبضہ کی جگہ پر کاروبار کرنے اور اس کاروبار کی آمدنی کا حکم، قبضہ کی جگہ پر مسجد یا وضو خانہ بنانے کا حکم


سوال

1- غیر قانون ی تجاوزات اور قبضہ کی ہوئی جگہ پر کیے گئے کاروبار کی آمدنی حرام ہوگی یا حلال؟  اکثر راستے   تنگ ہو جاتے ہیں اور بیچ راستے میں کچرے وغیرہ کا ڈھیر لگا کر مزید راہ  چلنے والوں کے تکلیف باعث بھی بنتے ہیں اور راستے کے حقوق بھی غضب کرتے ہیں۔ کوئی عالم دین بتائے گا؟ آپ مجھے اس پر فتوی لاکر دیں گے؟

2-  مجھے یہ بھی بتائیں کہ ناجائز قبضہ کر کے یا سرکاری زمین، روڈ کو تنگ کر کے مساجد، وضو کھانے بنانا جائز ہے؟

جواب

غیر قانونی تجاوزات اور ناجائز قبضہ کی ہوئی غیر مملوکہ جگہوں پر کاروبار کرنا جائز نہیں ہے، اور اس کی وجہ سے اگر راستے تنگ ہوجاتے ہوں اور کچرے کے ڈھیر لگ جاتے ہوں جس کی بنا  پر راہ چلنے والوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو یہ مزید سخت گناہ کی بات ہے؛ کیوں کہ اس  سے لوگوں کو تکلیف پہنچنے کی وجہ سے حقوق العباد کی خلاف ورزی بھی لازم آرہی ہے،  بخاری شریف کی ایک حدیث  میں مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ ﷺ سے راستوں میں بیٹھنے کی اجازت مانگی تو  آپ ﷺ نے اس شرط پر اجازت دی کہ راستے کا حق ادا کیا جائے،جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ راستے کا حق کیا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ  راستے کا حق یہ ہے کہ راستے میں نظروں کی حفاظت کی جائے، کسی کو تکلیف دینے سے اجتناب کیا جائے، سلام کا جواب دیا جائے، نیکی کا حکم کیا جائے اور برائی سے روکا جائے۔خلاصہ یہ ہے کہ غیر قانونی تجاوزات پر دکانیں لگا کر کاروبار کرنا کئی گناہوں کا مجموعہ ہے، ایک گناہ عوامی جگہوں پر ناجائز قبضہ کرنے کا، دوسرا  راہ چلنے والوں کو تکلیف پہنچانے کا، تیسرا ان جگہوں پر کاروبار کرنے کے  لیے رشوت دینا وغیرہ۔

البتہ قبضہ  کی ہوئی جگہ پر کاروبار کرنے سے  اس کاروبار کی آمدنی حرام  نہیں ہوگی، لیکن اس میں کراہت ضرور آجائے گی،  بہرحال ناجائز تجاوزت اور  قبضہ والی جگہوں  پر کاروبار کرنے سے  اجتناب کرنا  چاہیے۔

کسی بھی جگہ پر مسجد یا مسجد کا وضو خانہ بنانے کے  لیے شرط یہ ہے کہ اس جگہ کو  مالک سے خرید کر وقف کیا جائے یا مالک خود سے اس جگہ کو مسجد کے  لیے وقف کردے، سرکاری زمین کو سرکار کی اجازت کے بغیر اور کسی کی ذاتی زمین کو اس کی اجازت کے بغیر غصب کرکے اورناجائز قبضہ کرکے اس پر مسجد یا وضو خانہ بنانا جائز نہیں ہے۔

مزید دیکھیے:

حکومتی جگہ پر بنی ہوئی قدیم مسجد کا حکم

استفتاء بابت مدینہ مسجد طارق روڈ کراچی

صحيح البخاري (3/ 132)

 حدثنا معاذ بن فضالة، حدثنا أبو عمر حفص بن ميسرة، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إياكم والجلوس على الطرقات»، فقالوا: ما لنا بد، إنما هي مجالسنا نتحدث فيها، قال: «فإذا أبيتم إلا المجالس، فأعطوا الطريق حقها»، قالوا: وما حق الطريق؟ قال: «غض البصر، وكف الأذى، ورد السلام، وأمر بالمعروف، ونهي عن المنكر»

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (13/ 13)

قوله: (إياكم والجلوس) ، بالنصب على التحذير، أي: اتقوا الجلوس واتركوه على الطرقات. ۔۔۔۔۔۔(قال: غض البصر) أي: قال النبي صلى الله عليه وسلم: حق الطريق غض البصر، وأراد به السلامة من التعرض للفتنة لمن يمء من النساء وغيرهم قوله (وكف الأذى) بالرفع عطف على ما قبله وأراد به السلامة من التعرض إلى أحد بالقول والفعل مما ليس فيهما من الخير. قوله: (ورد السلام) ، يعني: على الذي يسلم عليه من المارين. قوله: (وأمر بمعروف) ، وهو كل أمر جامع لكل ما عرف من طاعة الله تعالى والتقرب إليه والإحسان إلى الناس وكل ما ندب إليه الشرع من المحسنات ونهى عنه من المقبحات، والمنكر ضد المعروف، وكل ما قبحه الشرع وحرمه وكرهه، وزاد عند أبي داود: وإرشاد السبيل وتشميت العاطس إذا حمد، ومن حديث عمر، رضي الله تعالى عنه، عند الطبراني: وإغاثة الملهوف، زيادة على ما ذكر."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200812

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں