بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

حکومتی جگہ پر بنی ہوئی قدیم مسجد کا حکم


سوال

 ایک مسجد  گورنمنٹ کی جگہ پر بنی ہوئی ہے، تو  کیا اس مسجد میں نماز پڑھنا درست ہے یا نہیں؟  اور اب تک جن لوگوں نے وہاں نمازیں پڑھی  ہیں ان نمازوں کا کیا حکم  ہے؟  اگر وہ جگہ خریدنے کی کوشش کی جائے تو کورٹ ان کو سزا سنائے  گی،  اس لیے کوئی  گورنمنٹ سے خریدے گا نہیں اور مسجد  کئی  سال  سے آباد ہے، اس کو  شہید کرنا مکمن نہیں۔ تو پھر کوئی ایسا راستہ  بتائیں کہ حکومت کی سزا سے بھی بچ  سکیں اور شرعی حیثیت سے منع بھی نہ ہو!

جواب

واضح رہے کہ مسلمان آبادی کے لیے مناسب فاصلوں پر مساجد کا قیام ، تعمیر اور  انتظام حکومتِ  مسلمہ کی ذ مہ داری ہے اور اگر حکومتِ  وقت اپنی یہ ذمہ داری پوری نہ کرے اور مسلمان رعایا ضرورت کے پیشِ  نظر  خود مسجد تعمیر کرلے اور  ایک عرصہ  دراز  اس مسجد پر گزر جائے  اور   حکومت  کی  طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ڈالی جائے تو دلالۃ حکومت کی طرف سے اجازت شمار ہوگی اور یہ مسجد مملوکہ زمین پر نہ ہونے کے باوجود شرعی مسجد شمار ہوگی لہذ ا صورت مسئولہ میں جب مذکورہ مسجد عرصہ دراز سے بنی ہوئی ہے  اور اس میں پنجگانہ نماز پابندی سے ہورہی ہے تو اب یہ شرعا مسجد ہے اور اس میں ادا کی ہوئی نمازیں درست ہیں اور اب اس کو کورٹ میں جاکر خریدنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔

الفتاوى الهندية میں ہے:

«ذكر في المنتقى عن محمد - رحمه الله تعالى - في الطريق الواسع فيه بنى أهل المحلة مسجدا وذلك لا يضر بالطريق فمنعهم رجل فلا بأس أن يبنوا، كذا في الحاوي.

وفي الأجناس وفي نوادر هشام قال: سألت محمد بن الحسن عن نهر قرية كثيرة الأهل لا يحصى عددهم وهو نهر قناة أو نهر واد لهم خاصة، وأراد قوم أن يعمروا بعض هذا النهر ويبنوا عليه مسجدا ولا يضر ذلك بالنهر ولا يتعرض لهم أحد من أهل النهر قال محمد - رحمه الله تعالى -: يسعهم أن يبنوا ذلك المسجد للعامة أو المحلة، كذا في المحيط.»

(کتاب الوقف فصل اول  ج نمبر ۲ ص نمبر ۴۵۶،دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"فإنه يجب ‌أن ‌يتخذ ‌الإمام ‌للمسلمين مسجدا من بيت المال، أو من مالهم إن لم يكن لهم بيت مال، كذا في فتح القدير."

(کتاب الوقف  ج نمبر ۴ ص نمبر ۳۳۹،ایچ ایم سعید)

فتاوی بینات میں ہے:

وہ مسجد جو زمانہ قدیم سے قائم ہے اگرچہ سرکاری زمین پر قائم ہے لیکن چونکہ سابقہ ذمہ داران حکومت نےاس پر سکوت اختیار کیا اور بعد از تقسیم بھی مختلف حکومتوں نے سکوت اختیار کئے رکھا  یہی سکوت اس کی رضامندی کی علامت ہوگا گو یا ارکان حکومت سکوت سے باور کراتے ہیں کہ اچھا ہو عوام نے ہمارے فریضہ کی ہماری طرف سے ادائیگی کردی ،جب کسی جگہ  ایک  مرتبہ  مسجد بن جائے تو تا قیامت وہ جگہ مسجد رہے گی الخ۔۔۔

(کتاب الوقف و المساجد ج نمبر ۳ ص نمبر ۶۴۱،مکتبہ بینات)

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144209201656

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں