بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استفتاء بابت مدینہ مسجد طارق روڈ کراچی


سوال

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

عرض ہے کہ مدینہ مسجد ٹرسٹ رجسٹرڈ جو طارق روڈ کراچی میں واقع ہے یہ مسجد۱۹۸۰میں بنائی گئی ، مدینہ مسجد باقاعدہ ٹرسٹ کے نام ہے ، یہ ٹرسٹ۱۹۸۶میں بنام : مدینہ مسجد ٹرسٹ حکومت سے رجسٹرڈ کروایا گیا ، نیز ہر سال اس کی تجدید بھی کی جاتی ہے ۔مزید برآں پاکستان ایمپلائیز” کو آپریٹو ہاوسنگ سوسائٹی“ کے جنرل سیکٹری نے مورخہ۶دسمبر۱۹۹۴کو لیٹر نمبرPECHS/1655/94کے مطابق دل کشاں پارک کی جگہ پر پوری مارکیٹ ، اہل علاقہ ومحلہ ، مکین حضرات کے بےحد اصرار پر مدینہ مسجد کی  تعمیر کیNOC دی، اورسنہ۲۰۰۰ءمیں ٹرسٹ کی رجسٹریشن کی باقاعدہ تجدید بھی کی گئی ہے ، مدینہ مسجد کی زمینPECHS کی ملکیت تھی ،جن سے۱۹۹۴میں باقاعدہ جدید تعمیر کیNOCحاصل کی گئی، اور حکومت سندھ کے محکمہKBCجو  ابSBCAکہلاتا ہے سے۱۹۹۶میں اس کا باقاعدہ نقشہ پاس کرویا گیاہے  ۔ مدینہ مسجد ٹرسٹ کا۱۹۹۷میں علامہ بنوری ٹرسٹ [جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاون] سے باقاعدہ الحاق کیا گیا  ہے ،مدینہ مسجد ٹرسٹ ہر سال اپنی آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ بھی کرواتاہے ، اس مسجد میں عام نمازوں میں تقریبا دو ہزار افراد شرکت کرتے ہیں ، جبکہ جمعہ کی نماز میں چار سے پانچ ہزار کا مجمع ہوتا ہے،  اور الحمد للہ آج تک مسجد قائم ودائم ہے  ۔آج تک کسی فرد یا جماعت کو اس مسجد سے کسی بھی قسم کی کوئی ادنی تکلیف یا ضرر نہیں پہنچا، اور کسی نے کسی بھی فورم پر کوئی شکایت یا دعوی تک نہ کیا، آج تک تمام معاملات باہمی اتحاد واتفاق کی روشنی میں نمٹائے گئے ، اور بقول عدالت عالیہ کے یہ مفاد عامہ کے حامل پارک کی زمین پر بنائی گئی ، لہذا وہ متعلقہ حضرات جس کے مفاد کو تحفظ دینے کے تحت یہ قدم اٹھایا جارہا ہے، وہ سب کے سب اس مسجد کے وجود پر مکمل راضی متفق ومتحد ہیں اور کسی کو اسکے ہونے پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ 

۲۸ دسمبر۲۰۲۱ءکو سپریم کورٹ نے مذکورہ مسجد گرانے کا فیصلہ دیا ، ہم تمام نمازی ، اہل علاقہ واہل محلہ اس فیصلے کے خلاف سپراپا احتجاج ہیں، اور ہم نے سپریم کورٹ سے  مطالبہ بھی کیا ہے کہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ ہم تمام اہل محلہ ، طارق روڈ کے مکین ، کاروباری حضرات اور نمازیوں کو اس فیصلے پر  شدید ترین تحفظات ہیں،ہمارا یہ ایمان ہے کہ یہ خالصتاً دینی مسئلہ ہے،  لہذا اسمیں بھی شریعت کو فوقیت دینا ہی لازم ہے،  اس سلسلہ میں آپ حضرات سے فتوی درکار ہے کہ شریعت اس بارےمیں کیا کہتی ہے ؟ اور ہم سمجھتے ہیں کہ سنہ 1963ء میں کراچی سٹی پوسٹ آفس میں واقع مسجد کے حوالے سے کسی قسم کے سرکاری آرڈر پر ایک فتوی لیا گیا تھا ، جس پر اس وقت کے ملک بھر کے تمام قابل ذکر دارالافتاء واکابرین کا متفقہ جواب دیا گیا تھا، از راہ کرم ہمارے قضیے کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جائے ۔ فتوی کی کاپی منسلک ہے ۔ 

یا د رہے کہ مدینہ مسجد انتظامیہ نے اہل محلہ ومکینوں کے اجتماعی اتفاق سے مسجد سے ملحق پارک وکلب کا قبضہDMCجمشید ٹاون شرقی کے حوالے کردیا ہے ، وہاں پر جلد از جلد پارک کی تعمیر اور اسکا نام گلزار پارک رکھنے پر اہل علاقہ حکومت کے شکر گزار ہوں گے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جواب سے پہلے کچھ تمہیدی باتوں کا جاننا ضروری ہے:

1۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ تشریف لائے اور "ریاستِ مدینہ" وجود میں آئی  تو وہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نےسب سے پہلے مسجد کے قیام کا فیصلہ فرمایا، اس لئے کہ ایک مسلم معاشرے میں مسجد اور مسجد کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے،مسجد مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور یہ اسلامی معاشرے کی ایک ناگزیر ضرورت ہے۔  قرآن کریم اور ارشادات نبویہ میں مساجد کی اس  اہمیت و عظمت  اور تقدس کو واضح کیا گیا ہے اور اس کو شعائرِ اسلام میں  سے اہم شعار شمار کیا گیا۔

2۔ قرآنِ کریم  اور احادیثِ نبویہ میں تعمیرِ مسجد  کو ایمان اور  اہل ایمان کی علامت اور  شان کے طور پر بیان کیا گیا اور تعمیر کرنے والوں اور آباد کرنے والوں کو خوشخبری دی گئی، اس کے بر خلاف مسجد کو ویران کرنے، لوگوں کو مسجد میں آنے سے روکنے اور تخریبِ مسجد کرنے اور اس کارِ بد میں  شریک بننے والوں کے لئے درد ناک عذاب کی وعید بتائی گئی۔

3۔ مسجد کی تعمیر اور پہلے سے موجود مساجد کی بقاء و استحکام حکومت کی اولین ذمہ داریوں میں سے ہے، اگر حکومتِ وقت اس ذمہ داری کو نہیں اٹھاتی اور اس میں کوتاہی کرتی ہے تو پھر عام مسلمانوں پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ  اپنی دینی ضرورت کے پیشِ نظرمسجد کی تعمیر ،اس کی تولیت و انتظام اور اس کے متعلقہ  جملہ امور کی ذمہ داری اٹھائیں۔

جو جگہ علاقے کے لوگوں کی ضرورتوں کے لیے خالی پڑی ہو، وہاں اہلِ علاقہ کی رضامندی سے مسجد بنانا  جائز ہے اورحکومت کا فرض ہے کہ لوگوں کی ضرورت کے مدِ نظر وہاں مسجد بنوائے۔

5۔ اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو، اور وہاں ایسی خالی زمین ہو جو کسی کی ذاتی ملکیت نہ ہو، بلکہ مصالحِ عوام کے لیے ہو، اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے اور ایسی مسجد میں نماز پڑھنا بھی جائز  اور اجر و ثواب کا باعث ہے، مسلمانوں کے لیے نماز اور اس کے انتظام سے بڑھ کر کوئی مصلحت نہیں ہوسکتی، کیوں کہ یہ ہدایت اور رحمت کا مرکز ہے۔

6۔ اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہو اور اہلِ علاقہ کسی خالی سرکاری زمین پر  حکومت کے متعلقہ اداروں  کی اجازت سے  مسجد تعمیر کریں، اور  تعمیر کے بعد اس  میں باقاعدہ پنج وقتہ نمازیں   و نمازِ  جمعہ ادا کی جاتی رہیں اور طویل عرصہ تک حکومت کی طرف سے ان مساجد کے قیام و تعمیر پر کوئی اعتراض بھی نہیں کیا گیا  تو یہ حکومت کی طرف سے   اجازت سمجھی جائے گی اور  ایسی تمام مساجد، شرعی مسجد ہیں، ان کو توڑنا جائز نہیں ، بلکہ ادب و احترام کرنا لازم ہے ۔

7۔ جو جگہ ایک دفعہ مسجد ِ شرعی بن جاتی ہے  تو پھر قیامت تک کے لئے اس کی مسجد کی حیثیت قائم رہتی ہے،  اس لئے کہ وہ اللہ کی ملکیت میں چلی جاتی ہے اور اللہ کی ملکیت میں جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جگہ اب  اللہ کی عبادت کے لئے مخصوص ہوچکی ہے، اور قیامت تک اس کا کوئی مالک نہیں ہوسکتااور اس کو کوئی  ختم نہیں کرسکتا، اس  کی ایک انچ برابر جگہ کو گرانا یا اس کی   حیثیت بدلنا اور اس کو پارک وغیرہ بناناشرعاً ناجائز ہے۔ یہی تمام مسالک کے علماء  و فقہاء  کا متفقہ مؤقف ہے۔

8۔ ایک مسلمان کے لئے بحیثیت مسلمان کسی طور یہ جائز نہیں کہ وہ شرعی احکامات  سے رُو گردانی کرے اور شعائر اللہ کے مقابلے میں دنیاوی قانون کو ترجیح دے۔

اس تمہید کے بعد :

کراچی کے علاقے طارق روڈ پر واقع مدینہ مسجد جو P.E.C.H.S  کی جگہ پر واقع ہے،  شریعت کے متذکرہ بالا اصول و احکام  کی روشنی میں یہ شرعی مسجد بن چکی ہے، اس لئے کہ:

الف:  اہلِ محلہ نے    پی،ای،سی،ایچ سوسائٹی سے  N.O.C  حاصل کرکے، حکومتِ سندھ کے محکمہ K.B.C   سے باقاعدہ  نقشہ پاس کروا کر یہ مسجد تعمیر کی ہے۔

ب: P.E.C.H.S  سے  اجازت اور K.B.C  کی طرف سے نقشہ پاس ہونا حکومت کی طرف سے اجازت میں داخل ہے۔

ج:  بیالیس سال سے اس مسجد میں ہزاروں افراد پنج وقتہ نمازیں، جمعہ اور اعتکاف  وغیرہ ادا  کر رہے ہیں اور حکومت نے کبھی منع نہیں کیا۔

د:  حقیقت تو یہ ہے کہ اس جگہ پر مسجد تعمیر کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی، لیکن حکومت کی طرف سے اس ذمہ داری کے پورا نہ کرنے اور  مسلمانوں کی دینی ضرورت کے پورا نہ ہونے کی بناء پر خود اہل محلہ نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور  اپنے افرادی تناسب کو مد نظر رکھتے ہوئے  اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئےاپنی دینی ضرورت کی خاطر یہ مسجد تعمیر کی  ۔

ہ: مسجد ایک مرتبہ تعمیر ہوجانے کے بعد ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے، حتٰی کہ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر کسی نے غصب کرکے زمین حاصل کرلی اور اس پر مسجد تعمیر کرلی تو  غاصب سے یہ تو کہا جائے گا کہ مالک کو ضمان اداکردے، البتہ مسجد کو نہیں توڑا جائے گا۔

لہذا اب یہ اعتراض اٹھاکر  کہ متعلقہ محکمہ یا افسر قانونی طور پر اجازت دینے کا مجاز نہیں تھا اس مسجدِ شرعی کو گرانا ، یا اس کو کہیں اور منتقل کرنا یا اس کی حیثیت کو تبدیل کرنا اور پارک بناناشرعاً ناجائز ہے، کیوں کہ حکومت نے متعلقہ محکمہ کو ختم بھی نہیں کیا اور ان کی اجازت  معتبر نہ ہونےپر کوئی حکم بھی جاری نہیں کیا۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے:

"الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عاقِبَةُ الْأُمُورِ ( الحج:41)"

ترجمہ: ”یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں، اور زکوۃ ادا کریں، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں، اور برائی سے روکیں،اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے۔“

دوسری جگہ ارشاد ہے:

"إِنَّما يَعْمُرُ مَساجِدَ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكاةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَاّ اللَّهَ فَعَسى أُولئِكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ( التوبة: 18)"

ترجمه:  ”اللہ کی مسجدوں کو تو وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے ہوں اور نماز قائم کریں اور زکوۃ ادا کریں اور اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈریں۔ ایسے ہی لوگوں سے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ وہ صحیح راستہ اختیار کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔ “

اس آیت سے معلوم ہورہا ہے کہ مساجد کو تعمیر اور ان کو آباد کرنااللہ کی عبادت اور ذکر سے یہ ایمان کی علامت ہے، چنانچہ اس آیت  کے ذیل میں مفسرِ کبیر علامہ قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر" الجامع لاحکام القرآن"میں تحریر فرماتے ہیں:

"قوله تعالى:" إنما يعمر مساجد الله" دليل على أن الشهادة لعمار المساجد بالإيمان صحيحة لأن الله سبحانه ربطه بها وأخبر عنه بملازمتها. وقد قال بعض السلف: إذا رأيتم الرجل يعمر المسجد فحسنوا به الظن. وروى الترمذي عن أبي سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال (إذا رأيتم الرجل يعتاد المسجد فاشهدوا له بالإيمان) قال الله تعالى:" إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر". وفي رواية: (يتعاهد المسجد). قال: حديث حسن غريب."

(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی، التوبة، تحت الآیة:18، 90/8، دارالکتب المصریة،قاہرۃ،  والجامع السنن للترمذی، ابواب التفسیر، ‌‌باب: ومن سورة التوبة، رقم الحدیث: 3093)

ترجمہ:”آیت کریمہ اس امر پر دلیل ہے کہ مساجد کی تعمیر کرنے والوں کے ایمان کی شہادت صحیح اور درست ہے، اسی لئے بعض سلف کا قول ہے کہ جب تم دیکھو کہ کوئی شخص مسجد کی آباد کاری میں کوشاں ہو تو اس کے ساتھ حسنِ ظن رکھو۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی یہ روایت بیان کی ہے کہ  رسول ِ کریم صلی اللہ  علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :((جب تم   دیکھو کہ کوئی شخص مسجد آتا رہتا ہے ( اور دوسری روایت میں ہے کہ )یا مسجد کی دیکھ بھال کرتا ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو))۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:" إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر"۔“

ایک اور جگہ ارشاد  الٰہی ہے:

"وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ مَنَعَ مَساجِدَ اللَّهِ أَنْ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعى فِي خَرابِها أُولئِكَ ما كانَ لَهُمْ أَنْ يَدْخُلُوها إِلَاّ خائِفِينَ لَهُمْ فِي الدُّنْيا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذابٌ عَظِيمٌ (البقرۃ:114)"

ترجمہ:  ”اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں پر اس بات کی بندش لگا دے کہ ان میں اللہ کا نام لیا جائے، اور ان کو ویران کرنے کی کوشش کرے۔ ایسے لوگوں کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان (مسجدوں) میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔  ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور انہی کو آخرت میں زبردست عذاب ہوگا۔ “

رد المحتار علی الدر المختار میں ہے:

فإنه يجب أن يتخذ الإمام للمسلمين مسجدا من بيت المال، أو من مالهم إن لم يكن لهم بيت مال كذا في فتح القدير۔

(رد المحتار علي الدر المختار، كتاب الوقف، 339/4، سعيد)

امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ اپنی تفسیر " مفاتیح الغیب او التفسیر الکبیر" میں تحریر فرماتے ہیں:

" مساجد الله عموم فمنهم من قال: المراد به كل المساجد... السعي في تخريب المسجد قد يكون لوجهين. أحدهما: منع المصلين والمتعبدين والمتعهدين له من دخوله فيكون ذلك تخريبا. والثاني: بالهدم والتخريب."

( التفسیر الکبیر للرازی،البقرۃ،تحت الآیة: 114، 12/4،دار احیاء التراث العربی)

ترجمہ:"مساجد اللہ ( کا لفظ جوآیت میں مذکور ہے)عام ہے، اسی لئے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس سے تمام مساجد مراد ہیں۔۔۔ مسجد کی تخریب کی کوشش دو صورتوں سے ہوتی ہے،1۔نماز پڑھنے والوں اور عبادت کرنے والوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکنا،2۔ مسجد کو ویران اور منہدم کرنا۔"

الدر المختار میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة (وبه يفتي)."

( الدر المختار ، کتاب الوقف،358/4، ط:سعید)

ترجمہ:"اگر مسجد کے اطراف کی جگہ ویران ہوجائے اور اس مسجد کی ضرورت ختم ہوجائےتب بھی اس کی مسجدیت قیامت تک باقی رہے گی۔"

رد المحتار علي الدر المختار ميں ہے:

"(قوله: ورابعها فمصرفه جهات إلخ)۔۔۔من أنه يصرف إلى المرضى والزمنى واللقيط وعمارة القناطر والرباطات والثغور والمساجد وما أشبه ذلك."

(رد المحتار، کتاب الزکوٰۃ، باب العشر،338/2، ط: سعید)

ترجمہ: "اور چوتھے حصے کے مصارف کی چند جہات ہیں۔۔۔ کہ ان کو بیماروں، اپاہجوں، لاوارث بچوں ،پُلوں،سراؤں ، سرحدوں  اور مساجد پر صرف کیا جائے۔"

وفيہ ايضا:

"ولهم نصب متول وجعل المسجدين واحدا وعكسه لصلاة."

 (الدر المختار علي هامش رد المحتار،‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، فروع أفضل المساجد،662/2، ط:سعید)

ترجمہ: "اور عوام کو متولی مقرر کرنے اور  نماز کے لئے دو مسجدوں کو ایک کرنے کا اور اس کے برعکس کرنے کا اختیار ہے۔"

البحرالرائقمیں ہے:

"‌وفي ‌الخانية ‌طريق ‌للعامة وهي واسعة فبنى فيه أهل المحلة مسجدا للعامة ولا يضر ذلك بالطريق قالوا لا بأس به وهكذا روي عن أبي حنيفة ومحمد لأن الطريق للمسلمين والمسجد لهم أيضا."

(البحر الرائق، کتاب الوقف، قبیل کتاب البیوع،276/5،ط: دار الکتاب الاسلامی۔ وهکذا فی الهندية، 456/2،ط: رشیدیة)

ترجمہ: "خانیہ میںہے کہ عوام کا ایک راستہ ہے اور وہ وسیع ہے، محلہ والے اگر اس میں مسجد تعمیر کرلیں اور اس تعمیر سے راستے کی آمد و رفت میں کوئی رکاوٹ نہ ہو تو فقہاء اس کو جائز سمجھتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہما اللہ سے اسی طرح مروی ہے کہ راستہ بھی مسلمانوں کا ہےاور مسجد بھی انہی کی ہے۔"

فتح القدیر لابن الہماممیں ہے:

(قوله ومن اتخذ أرضه مسجدا لم يكن له أن يرجع ولا يورث عنه) يعني بعد صحته بشرطه. وفي فتاوى قاضي خان: رجل له ساحة لا بناء فيها أمر قوما أن يصلوا فيها بجماعة، قالوا: إن أمرهم بالصلاة فيها أبدا أو أمرهم بالصلاة بجماعة، ولم يذكر الأبد إلا أنه أراد الأبد، ثم مات لا يكون ميراثا عنه.

(فتح القدیر لابن الهمام، کتاب الوقف، فصل إذا بنى مسجدا لم يزل ملكه عنه، 235/6،ط: مصر)

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"وقف المسجد حين يتم يصير خالصاً لله تعالى، وأن المساجد لله، وخلوصه لله تعالى يقتضي عدم جواز الرجوع فيه."

(الفقه الاسلامی وادلته للزحیلی،باب الوقف، الفصل الثالث،‌‌موقف القانون من‌‌ الرجوع في وقف المسجد، 7621/10، ط: دارالفکر)

ترجمہ: "مسجد کا وقف جب تام ہوجائے تو وہ وہ خالص اللہ تعالیٰ کا ہوجاتا ہے اور مساجد بھی اللہ ہی کی ہیں، اس کا خالص اللہ کے لئے ہونا اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس سے رجوع جائز نہیں۔"

وفیہ ایضا:

"ويجوز للإمام جعل الطريق مسجداً، لا عكسه، لجواز الصلاة في الطريق، ولا يجوز أن يتخذ المسجد طريقاً."

(الفقه الاسلامی وادلته للزحیلی،باب الوقف، الفصل الثامن، ‌‌جعل شيء من المسجد طريقاً وبالعكس،7675/10، ط:دار الفکر)

ترجمہ:"حاکم کے لئے جائز ہے کہ وہ راستے کو مسجد میں تبدیل کردے، لیکن اس کے برعکس  (مسجد کو راستے میں تبدیل) نہیں کرسکتا، اس لئے  کہ راستے میں نماز پڑھنا جائز ہے لیکن مسجد کو راستہ بنانا جائز نہیں۔"

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100763

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں