بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختمِ قرآن پر مقتدیوں سے ملنے والے تحائف کا حکم


سوال

تراویح میں ختم قرآن کے بعد مقتدی حضرات تحفے تحائف اور کچھ نقدرقم حافظ صاحب کو اعزاز و اکرام کے طور پر دیتے ہیں،  ان کا لینا درست ہے یا نہیں؟  اگر درست نہیں ہے تو جو لے چکا ہے وہ ان کا کیا کرے؟

جواب

اگر  تراویح پڑھانے کی اگر کوئی اجرت طے نہ کی گئی ہو  اور  حافظ صاحب کی طرف سے مطالبہ بھی نہ ہو اور تحفہ تحائف نہ دینے پر شکوہ یا شکایت نہ ہو اوردینا مشروط یا معروف بھی نہ ہو تو  ایسی صورت میں   ختمِ قرآن کے موقع پر  اگر بلا تعیین تراویح پڑھانے والے کو کچھ تحفہ تحائف (پیسے یا سوٹ وغیرہ کی شکل میں)  اعزاز و اکرام کے طور پر ہدیہ ، تحفہ یا عیدی وغیرہ کے نام سے دیا جائے تو اس کے لینے اور دینے کی گنجائش ہے؛ لہذا  جہاں اس طرح دینے کا رواج ہو، یا رواج تو نہیں مگر نہ دیا جائے تو حافظ صاحب ناراض ہوتے ہوں، ایسی جگہ یہ تحفے و نقدی وغیرہ لینا جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ قرآن کے بدلے میں دنیا کمانے کی اور عبادت پر اجرت لینے کی ایک شکل ہے، لینے اور دینے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔ اس سلسلے میں ہماری ویب سائٹ پر تفصیلی فتوی ملاحظہ فرمائیں: تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر ہدیہ دینے کا حکم ، نیز یہ بھی دیکھیں:حافظ صاحب کو ختم قرآن پر ہدیہ دینے کا حکم ۔

اورجو کسی نے ایسا ہدیہ وغیرہ لے لیا ہے اور ابھی وہ اس کے پاس  موجود  ہے، تو  اسے واپس کردے، اور اگر اب وہ چیز یا رقم  باقی نہیں ہے تو توبہ و  استغفار کرے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"فقلت: ومنها أن لا ينتفع الأجير بعمله فإن كان ينتفع به لم يجز؛ لأنه حينئذ يكون عاملا لنفسه فلا يستحق الأجر ولهذا قلنا: إن الثواب على الطاعات من طريق الإفضال لا الاستحقاق؛ لأن العبد فيما يعمله من القربات، والطاعات عامل لنفسه قال سبحانه وتعالى {من عمل صالحا فلنفسه} [فصلت: 46] ومن عمل لنفسه لا يستحق الأجر على غيره وعلى هذه العبارة أيضا يخرج ‌الاستئجار ‌على ‌الطاعات فرضا كانت أو واجبة أو تطوعا؛ لأن الثواب موعود للمطيع على الطاعة فينتفع الأجير بعمله فلا يستحق الأجر".

(كتاب الإجارة، فصل في شرائط ركن الإجارة، ج4، ص192، ط: مطبعة الجمالية بمصر)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال الإمام الأستاذ لا يطيب، والمعروف كالمشروط اهـ. قلت: وهذا مما يتعين الأخذ به في زماننا لعلمهم أنهم لا يذهبون إلا بأجر ألبتة ط.
 [مطلب في الاستئجار على الطاعات]
(قوله ولا لأجل الطاعات) الأصل أن كل طاعة يختص بها المسلم لا يجوز الاستئجار عليها عندنا لقوله - عليه الصلاة والسلام - "اقرءوا القرآن ولا تأكلوا به" وفي آخر ما عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى عمرو بن العاص "وإن اتخذت مؤذنا فلا تأخذ على الأذان أجرا" ولأن القربة متى حصلت وقعت على العامل ولهذا تتعين أهليته، فلا يجوز له أخذ الأجرة من غيره كما في الصوم والصلاة هداية. مطلب تحرير مهم في عدم جواز الاستئجار على التلاوة والتهليل ونحوه مما لا ضرورة إليه."

(باب الإجارة الفاسدة، ج6، ص55، ط: سعيد)

فتاوی رشیدیہ مبوب بطرزِ جدید  میں ہے:

"سوال: جو شخص قرآن نمازِ تراویح میں سنائے، بغیر ٹھہرائے اور  مانگے اگر آدمی کچھ اُس کو بطور چندہ کے دیویں، یہ لینا اس کو جائز ہے یا نہیں ہے؟ اور دینے والے کو یہ دینا درست ہے یا نہیں؟

جواب: اگر حافظ کے دل میں لینے کا خیال نہ تھا اور پھر کسی نے دیا تو درست ہے؛ اور جو حسبِ رواج و عرف دیتے ہیں، حافظ  بھی لینے کے خیال سے پڑھتا ہے، اگرچہ زبان سے کچھ نہیں کہتا؛ تو درست نہیں  فقط واللہ اعلم۔"

(کتاب الصلوۃ، ص393، ط: عالمی مجلس ِتحفظ ِاسلام، کراچی)

کفایت المفتی میں ہے:

"امامت کی تنخواہ لینا جائز ہے، مگر تراویح  میں قرآن مجید سنانے  کی اجرت لینا جائز نہیں ہے؛ اگر امام مطالبہ نہ کرے اور لوگ خود کچھ رقم جمع کرکے اسے دے دیں تو یہ مباح ہے، بشرطیکہ اس کی طرف سے مطالبہ اور خواہش نہ ہو اور نہ ملے تو ناراض بھی نہ ہو۔"

(تنخواہ دار امام کے پیچھے نماز جائز ہے،ج3، ص108، ط: دار الإشاعت)

نیز دوسری جگہ ہے:

"عنوان:تراویح پڑھانے والے کی اجرت اور شبینہ کا حکم:

سوال:تراویح میں قرآن شریف سنانےوالےحافظ کو اجرت دینا جائز ہےیا ناجائز؟اگرجائز ہےتو تعین کےساتھ یا بلاتعین؟

جواب:بلاتعیین دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکوہ شکایت بھی نہ ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔"

(کتاب الصلاۃ،395/3،ط:دارالاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"عنوان:تراویح پڑھانےوالےکوخوشی سےہدیہ پیش کیا جائے تو وہ قبول کرسکتاہےیانہیں؟

سوال:احقر ہمت نگر میں سات سال سےتراویح پڑھاتاہےمگرالحمدللہ کبھی بھی پیسےوغیرہ کچھ بھی نہیں لیے،لوگ بھی بہت خوش ہیں امسال وہ خوشی سے کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہتےہیں تو میں یہ ہدیہ لےکرغریب کو دےسکتاہوں یا نہیں؟یا اپنےاستعمال میں لاسکتاہوں؟نیز میں ظہر کی نماز بھی روزانہ پڑھاتاہوں،بینوا وتوجروا۔

جواب:آپ سات سال سے تراویح پڑھاتےہیں اور ہدیہ نہیں لیتے،اگرامسال بھی اسی جگہ تراویح پڑھارہےہیں اوروہ خوشی سےکچھ پیش کرنےپرمصرہیں تو قبول کرسکتےہو کہ محض ہدیہ ہے،قبل ازیں سات سال تک لینے دینے کا سلسلہ نہیں رہایہ اس کی دلیل ہے،اگر نئی جگہ ہےتو قبول نہ کیا جائے کہ ہدیہ نہیں بلکہ اجرت پیش کی جارہی اس لیے کہ لوگ اجرت دینےکےعادی ہیں لہذا قبول نہ کیاجائے،غریب کو دینےکی نیت سے بھی نہ لیاجائے۔"

(کتاب الصلاۃ،مسائل تراویح،243/6،ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"عنوان:قرآن شریف سنانےکی اجرت اوراس کا حیلہ:

سوال:حفاظ رمضان میں قرآن شریف سنانےکےلیےباہرسےبلائےجاتےہیں اورختمِ قرآن کےبعدستائیسویں رمضان کو بلانےوالےحضرات حافظِ قرآن کو کچھ رقوم نقداورکپڑے وغیرہ دیتےہیں،جس کا لیناعلمائےدیوبندحرام بتاتےہیں،مگراس حرمت سےبچنےکےلیےاگرحافظ قرآن صرف تراویح کےلیےبلایاجاتاہے،فرائض پنجگانہ پڑھادیاکرےاوراسےنماز پنجگانہ کےپڑھانےکےحیلہ سےپہلےسےکوئی طےشدہ رقم دی جائےتواس رقم کا لینا اس حیلہ سےجائز ہوسکتاہےیا نہیں؟

جواب:اس میں گنجائش ہے،اس کی صورت یہ کی جائےکہ پنچگانہ نماز کےلیےامام کو مقرر کرلیاجائےاوررقم مقررہ طےکرلی جائےپھر وہ تراویح بھی پڑھادے۔"

ایک اور فتوے میں ہے:

"سوال: اگر مسجد والے  یا محلہ والے لوگ یا کوئی خاص  امیر آدمی حافظ کی خدمت کرے، ختمِ قرآن پر ہو یا درمیان میں ہو، وہ کیسا ہے؟ ان کا خیال قرآن کی اجرت دینے کا نہیں، اور نہ قطعی خیال حافظ کا ہو کہ میں اجرتِ قرآن لے رہا ہوں۔ وہ  لینا درست  ہے یا نہیں؟

جواب: اگر حافظ کی اس موقع پر خدمت کرنے کا قطعاً رواج نہیں، نہ کوئی دیتا ہے  نہ لیتا ہے، بلکہ محض ثواب کے لیے سنتے اور سناتے ہیں اور حافط کو اس کا  پختہ یقین ہوتا ہےکہ یہاں سے کچھ نہیں ملے گا، نیز اگر اس کو کچھ نہ دیا گیا تو اس کے دل میں خیال نہیں آئے گا اور آئندہ سنانے سے کسی طرح پہلو تہی نہیں کرے گا تو خدمت کرنا درست ہے، مگر  ایسا عام طور پر ہوتا نہیں۔

     اگر اسی موقع پر کچھ دینے اور کچھ لینے کا رواج ہے کہ عام طور پر دیا جاتا ہے، بہت سے دیتے ہیں اور بہت   سے نہیں دیتے تو ایسی صورت میں اگرچہ دینے لینے کا ذکر نہ آیا تب بھی دینا اور لینا ناجائز ہے، ہر دو گناہ گار ہوں گے، جو کچھ حافظ نے لیا ہے اس کی واپسی ضروری ہے؛ "لأن المعروف كالمشروط، و القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب، و الآخذ و المعطي آثمان، آه". رد المحتار۔"

(کتاب الاجارۃ،باب الاستیجار علی الطاعات،ج17، ص72،73،ط:فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100710

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں