بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تراویح میں ختم قرآن کے موقع پر ہدیہ وغیرہ لینے کا حکم


سوال

رمضان میں قرآن سنانےکےبعداگرکوںٔی شخص خوشی سےکچھ ہدیہ دےیاپیسےوغیرہ دےتو کیا لیناجاںٔز ہے؟اگر جا ںٔزنہیں ہےتو کو ںٔی ایسی صورت ہےجس میں لیناجاںٔز ہو؟

جواب

 تراویح میں قرآنِ مجید سناکر اجرت لینا اور لوگوں کے لیے اجرت دینا جائز نہیں ہے، لینے اور دینے والے  دونوں گناہ گار ہوں گے اورثواب بھی نہیں ملے گا،اگر بلاتعیین کچھ دے دیا جائےاوروہاں بطور اجرت لینے کا رواج بھی نہ ہو  اور نہ دینے پر شکایت بھی نہ کی جائے،نیزپہلے سے بطورِ اجرت کچھ طے نہ ہوا ہو  اور کوئی اپنی خوشی سےدےدےتو اس صورت میں لینے کی گنجائش ہے، لیکن اب رواج ایسا بن چکا ہے کہ ہدیہ نہیں بلکہ اجرت پیش کی جارہی اس لیے کہ لوگ اجرت دینےکےعادی ہیں اسے بھی قبول نہ کیاجائے،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص حافظ قرآن کو اپنی خوشی سے ہدیہ دیتاہےتو اس کو بھی نہ لیاجائے کیوں کہ عام طور پر اجرت دینے کارواج بن چکا ہے،حافظ قرآن اجرت لےکر اجرِ عظیم سے اپنے آپ کو محروم نہ کرے،البتہ جواز کی ایک صورت یہ ہےکہ رمضان میں پانچوں نمازوں یا صرف عشاء کی نماز کےلیےامام مقرر کیاجائےاوررقم مقررہ طےکرلی جائےپھروہ تراویح بھی پڑھادے توجائز ہے۔

ارشادِ باری تعالی ٰ ہے:

"  وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا  ."(سورۃ البقرۃ،آیت نمبر:41)

ترجمہ:اور مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہٴ حقیر کو ۔"(بیان القرآن)

مشكاة المصابيح میں ہے:

"عن بريدة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌قرأ ‌القرآن يتأكل به الناس جاء يوم القيامة ووجهه عظم ليس عليه لحم."

(کتاب فضائل القرآن،باب اختلاف القراءات الخ،680/1،ط:المکتب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال تاج الشريعة في شرح الهداية: إن القرآن بالأجرة لا يستحق الثواب لا للميت ولا للقارئ. وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا، والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛ فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا - إنا لله وإنا إليه راجعون."

(کتاب الاجارۃ،باب اجارۃ الفاسد،56/6،ط:سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

"عنوان:تراویح پڑھانے والے کی اجرت اور شبینہ کا حکم:

سوال:تراویح میں قرآن شریف سنانےوالےحافظ کو اجرت دینا جائز ہےیا ناجائز؟اگرجائز ہےتو تعین کےساتھ یا بلاتعین؟

جواب:بلاتعیین کچھ دے دیاجائےاورنہ دینے پرکوئی شکایت بھی نہ ہوتو یہ صورت اجرت سےخارج اورحدِجوازمیں داخل ہوسکتی ہے۔"

(کتاب الصلاۃ،396/3،ط:دارالاشاعت)

فتاوی رحیمیہ میں ہے:

"عنوان:تراویح پڑھانےوالےکوخوشی سےہدیہ پیش کیا جائے تو وہ قبول کرسکتاہےیانہیں؟

سوال:احقر ہمت نگر میں سات سال سےتراویح پڑھاتاہےمگرالحمدللہ کبھی بھی پیسےوغیرہ کچھ بھی نہیں لیے،لوگ بھی بہت خوش ہیں امسال وہ خوشی سے کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہتےہیں تو میں یہ ہدیہ لےکرغریب کو دےسکتاہوں یا نہیں؟یا اپنےاستعمال میں لاسکتاہوں؟نیز میں ظہر کی نماز بھی روزانہ پڑھاتاہوں،بینوا وتوجروا۔

جواب:آپ سات سال سے تراویح پڑھاتےہیں اور ہدیہ نہیں لیتے،اگرامسال بھی اسی جگہ تراویح پڑھارہےہیں اوروہ خوشی سےکچھ پیش کرنےپرمصرہیں تو قبول کرسکتےہو کہ محض ہدیہ ہے،قبل ازیں سات سال تک لینے دینے کا سلسلہ نہیں رہایہ اس کی دلیل ہے،اگر نئی جگہ ہےتو قبول نہ کیا جائے کہ ہدیہ نہیں بلکہ اجرت پیش کی جارہی اس لیے کہ لوگ اجرت دینےکےعادی ہیں لہذا قبول نہ کیاجائے،غریب کو دینےکی نیت سے بھی نہ لیاجائے۔"

(کتاب الصلاۃ،مسائل تراویح،243/6،ط:دارالاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"عنوان:قرآن شریف سنانےکی اجرت اوراس کا حیلہ:

سوال:حفاظ رمضان میں قرآن شریف سنانےکےلیےباہرسےبلائےجاتےہیں اورختمِ قرآن کےبعدستائیسویں رمضان کو بلانےوالےحضرات حافظِ قرآن کو کچھ رقوم نقداورکپڑے وغیرہ دیتےہیں،جس کا لیناعلمائےدیوبندحرام بتاتےہیں،مگراس حرمت سےبچنےکےلیےاگرحافظ قرآن صرف تراویح کےلیےبلایاجاتاہے،فرائض پنچگانہ پڑھادیاکرےاوراسےنماز پنچگانہ کےپڑھانےکےحیلہ سےپہلےسےکوئی طےشدہ رقم دی جائےتواس رقم کا لینا اس حیلہ سےجائز ہوسکتاہےیا نہیں؟

جواب:اس میں گنجائش ہے،اس کی صورت یہ کی جائےکہ پنچگانہ نماز کےلیےامام کو مقرر کرلیاجائےاوررقم مقررہ طےکرلی جائےپھر وہ تراویح بھی پڑھادے۔"

(کتاب الاجارۃ،باب الاستیجار علی الطاعات،72/17،ط:فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101378

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں