بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ختمِ قرآن کے موقع پر حافظ صاحب کو ہدیہ دینے کا حکم


سوال

 حفاظِ کرام کو رمضان کے مہینے میں تراویح میں ختمِ قرآن کے موقع پر بطورِ ہدیہ پیسے دیے جاتے ہیں، یہ پیسے لینا درست ہے یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ تراویح میں قاری اور سامع کو ختمِ قرآن  کے موقع  پر پیسے  دینے کا عام رواج ہو گیا ہے، بعض جگہوں پر چندے کے ذریعہ کچھ ہدایا اور نقد رقم دی جاتی ہے، بعض جگہوں میں اس کے لیے پہلے سے ہی کچھ رقم متعین کر دی جاتی ہے،اور بعض جگہوں میں  معاوضہ یا اجرت تومتعین نہیں کی جاتی، البتہ لینے دینے کا رواج چلا آرہا ہے  ا ور پڑھانے والے کو بھی یقین ہوتا ہے کہ مجھے تراویح پڑھانےکے عوض ایک خاص رقم ملے گی ، اور مسجد کے منتظمین کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر حافظ صاحب کو کچھ نہ دیا جائے تو اگلی مرتبہ ختم ِقرآن کے لیے حافظ صاحب  کی خدمت  میسر نہیں ہوگی ، توان تمام صورتوں میں حافظ صاحب کا تراویح کے بعد چاہے وہ کسی بھی نام سے ہو حقیقت یہ ہے کہ وہ قرآن سنانے کا معاوضہ ہوتا ہے، جو کہ جائز نہیں،۔ البتہ اگر کسی علاقے میں لینے دینے کا رواج نہ ہو ،اور نہ حافظ صاحب سے پہلے سے کچھ متعین کیا ہو اور چندہ کیے بغیر اگر کوئی شخص اپنی طرف سے حافظ صاحب کو کچھ دینا چاہیں تو اس  صورت میں لینے کی اجازت ہوگی ۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی شخص اپنی طرف سے ختم ِ قرآن کے موقع پرحافظ صاحب کی حوصلہ افزائی کے لیے ہدیہ  کے طور پر  نقد رقم وغیرہ دیتا ہے تو حافظ صاحب کے لیے وہ پیسے لیناجائز ہے،لیکن مشروط رقم لینا درست نہیں۔

فتاوی رحیمیہ میں ایک سوال کے جواب میں مذکورہےکہ:

"مصلیوں میں سےاگر کوئی صاحب ِ خیر حافظ صاحب کے افطار وسحری وغیرہ کا انتظام کردیں اور آخر میں بطورِ ہدیہ یا بطورِ امداد کچھ پیش کریں تو یہ قابلِ اعتراض نہیں ، بطورِ اجرت دینا ممنوع ہے۔"

(مسائل تراویح، ج:6، ص:257، ط:دارالاشاعت)

حدیث شریف میں ہے :

"عن أبي سعيد : أن ناسا من أصحاب النبي صلى الله عليه و سلم مروا بحي من العرب فلم يقروهم ولم يضيفوهم فاشتكى سيدهم فأتونا فقالوا هل عندكم دواء ؟ قلنا نعم ولكن لم تقرونا ولم تضيفونا فلا تفعل حتى تجعلوا لنا جعلا فجعلوا على ذلك قطيعا من الغنم قال فجعل رجل منا يقرأ عليه بفاتحة الكتاب فبرأ فلما أتينا النبي صلى الله عليه و سلم ذكرنا ذلك له قال وما يدريك أنها رقية ولم يذكر نهيا منه وقال كلوا واضربوا لي معكم بسهم۔"

(جامع الترمذی ،ابواب الطب،ج:2،ص:471،ط۔رحمانیہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقال العيني في شرح الهداية: ويمنع القارئ للدنيا،  والآخذ والمعطي آثمان. فالحاصل أن ما شاع في زماننا من قراءة الأجزاء بالأجرة لا يجوز؛ لأن فيه الأمر بالقراءة وإعطاء الثواب للآمر والقراءة لأجل المال؛  فإذا لم يكن للقارئ ثواب لعدم النية الصحيحة فأين يصل الثواب إلى المستأجر ولولا الأجرة ما قرأ أحد لأحد في هذا الزمان بل جعلوا القرآن العظيم مكسبا ووسيلة إلى جمع الدنيا –إنالله وإنا إليه راجعون –".

(کتاب الإجارۃ،باب الإجارۃالفاسدۃ،  ج:6،ص:56،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102448

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں