لوگ مسجد اور مدرسہ کے لیے چندہ جمع کرتے ہیں اور سفیر کو روزانہ کے حساب سے مزدوری دیتے ہیں تو کیا یہ پیسے لینا اس سفیر کے لیے جائز ہے یا نہیں؟ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ پیسے لینا سفیر کے لیے حرام ہے؛ کیوں کہ لوگ مسجد اور مدرسہ کی نیت سے چندہ جمع کرتے ہیں؟
چندہ جمع کرنے والے سفیر کے لیے تنخواہ مقرر کرنا جائز ہے، خواہ ماہانہ بنیاد پر تنخواہ طے کی جائے یا روزانہ کی بنیاد پر۔ اور اسی چندے میں سے عطیات و نفلی صدقات کی مد سے اس کی تنخواہ دینا بھی درست ہے۔ لیکن اگر اس سفیر کی ماہانہ تنخواہ مقرر نہیں ہے، بلکہ یہ مقرر کیا ہے کہ جتنا چندہ جمع کرے گا اس میں سے مخصوص فیصد کمیشن ملے گا، یہ طریقہ جائز نہیں ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ومنها: أن تكون الأجرة معلومةً. ومنها: أن لاتكون الأجرة منفعةً هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة".
(4/ 411، کتاب الإجارة، الباب الأول: تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ط: رشیدیة)
فقط والله اعلم
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک ملاحظہ کیجیے:
مدرسے کے سفیر کا چندہ میں کمیشن طے کرنا
مسجد کے سفیر کا چندہ کی رقم سے تنخواہ لینا
فتوی نمبر : 144206200873
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن