بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

مدرسے کے سفیر کا چندہ میں کمیشن طے کرنا


سوال

 مدرسے کے مہتمم صاحب کا اپنے مدرسے کے استاد سے کہنا کہ آپ مدرسے کے لیے دس ہزار روپے چندہ لوگوں سے لے کر جمع کراتے ہیں تو اس میں سے دو یا تین ہزار آپ کو ملیں گے۔ گویا کہ ہر دس ہزار روپے پر دو ہزار آپ کو ملیں گے۔ کیا استاد کے لیے یہ ہر دس ہزار پر دو ہزار لینا جائز ہے؟ استاد اگر مستحق زکاۃ ہو تو کیا اس کے لیے اس رقم کا لینا جائز ہے؟ اگر مستحق زکاۃ نہ ہو تو پہر کیا حکم ہے؟

جواب

مدرسہ کے سفراء کے لیے زکاۃ وصول کرنے کے کام  کے لیے   الگ سے کچھ  تنخواہ مقرر کردی جائے یا اگر مدرسے ہی کا استاذ ہو تو   چندہ والے ایام کی تنخواہ ڈبل کردی جائے،  اور تنخواہ کے مصرف سے ہی یہ تنخواہ بھی ادا کی جائے، اس طرح مدرسہ کا   کام بھی  ہوجائے گا اور سفراء کو اپنی محنت کا عوض بھی مل جائے گا۔

یہ بھی واضح رہے کہ مدارس کی طرف سے زکاۃ وصولی پر مامور سفراء، اس حوالے سے سرکاری عاملین کے حکم میں نہیں ہیں کہ انہیں زکاۃ میں سے ہی تنخواہ ادا کی جائے۔ خواہ سفیر مستحقِ زکوۃ ہو یا نا ہو، بہرصورت چندہ میں  اس کا کمیشن مقرر کرنا صحیح نہیں۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو) (دفع غزلاً لآخر لينسجه له بنصفه) أي بنصف الغزل (أو استأجر بغلاً ليحمل طعامه ببعضه أو ثورًا ليطحن بره ببعض دقيقه) فسدت في الكل؛ لأنه استأجره بجزء من عمله، والأصل في ذلك نهيه صلى الله عليه وسلم عن قفيز الطحان".

(6/ 56، کتاب الإجارۃ،  باب الإجارۃ الفاسدۃ، ط: سعید)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"ومنها: أن تكون الأجرة معلومةً. ومنها: أن لاتكون الأجرة منفعةً هي من جنس المعقود عليه كإجارة السكنى بالسكنى والخدمة بالخدمة".

(4/ 411،  کتاب الإجارة، الباب الأول: تفسير الإجارة وركنها وألفاظها وشرائطها، ط: رشیدیة)

 فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144202201297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں