بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سال گرہ کے چند دن بعد تحفے دینا


سوال

اگر کوئی سال گرہ کے موقع پر  کیک نہیں کاٹتا،  اور نہ اس  دن اسے کوئیتحفے دیتا  ہے، لیکن سال گرہ  سے  4، 5  دن بعد  اسے تحفے  دیتا ہے تو یہ جائز ہے ؟

جواب

سال گرہ  منانا؛ یعنی اس کے لیے گھر یا گھر سے باہر تقریب  کرنا،کیک کاٹنا، ٹوپیاں پہننا وغیرہ وغیرہ اسلامی نقطۂ نظر سے پسندیدہ نہیں ہے، بلکہ یہ موجودہ زمانہ  میں اغیار کی طرف سے آئی ہوئی ایک رسم ہے، جس میں عموماً طرح طرح کی خرافات شامل ہوتی ہیں، لہذا اگر سال گرہ کے موقع پر اَغیار  کی طرح مخصوص لباس پہنا جائے، موم بتیاں لگاکر کیک  کاٹا  جائے، موسیقی  ہو اور مرد وزن کی مخلوط محفلیں ہوں، تصویر کشی ہو  تو ایسے  مروجہ طریقہ پر سال گرہ منانا شرعاً جائز نہیں ہو گا۔

البتہ اگر سال گرہ کا دن چھوڑ کر چند دن بعد، بغیر کسی تقریب کے یا سادہ سی تقریب میں جو کہ خرافات پر مشتمل نہ ہو اور اس میں صرف گھر کے افراد ہوں، تحفے دے دیے جائیں؛ تو اس طرح تحفے دینا جائز ہے ۔ اگرچہ اس سے بھی اجتناب ہی بہتر ہے، کیوں کہ بہرحال اس کا تعلّق برتھ ڈے کی مناسبت سے ہے، اور برتھ ڈے منانا کوئی اسلامی تصور نہیں ہے، جب کہ تحفے تحائف کے لین دین اور مل بیٹھ کر کھانے پینے کے لیے بہت سے دوسرے مواقع بھی ہیں۔

تفصیل کے لیے ہماری ویب سائٹ پر موجود درج ذیل فتوے ملاحظہ فرمائیں:

1)سالگرہ منانا اور اس کی مبارک باد دینا ،

  2) سالگرہ منانا اور تشبہ بالکفار کی حقیقت ،اور

3) کیا سال گرہ منانا گناہ ہے؟

اللہ تعالٰی کافرمان ہے:

"﴿وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ﴾." [المؤمنون: 3] 

ترجمہ: "اور جو لغو باتوں سے بر کنار (ایک طرف ہو کر) رہنے والے ہیں"۔(بیان القرآن)  "یعنی  بے کار و فضول مشغلوں میں وقت ضائع نہیں کرتے.."(تفسیر عثمانی)

حدیثِ پاک میں ہے:

عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "من ‌حسن ‌إسلام المرء تركه ما لا يعنيه".

ترجمہ: "نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا: "آدمی کا بے مقصد چیز کو چھوڑ دینا اس کے اسلام کی خوبی میں سے ہے"۔

(سنن ابن ماجه، ج2، ص 1315،  ت عبد الباقي. سنن الترمذي ، ج4، ص 558،  ت شاكر)

مرقات المفاتیح میں ہے:

" قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: من حسن إسلام المرء) أي: من جملة محاسن إسلام الشخص وكمال إيمانه (تركه ‌ما ‌لا ‌يعنيه) ، أي: ما لا يهمه ولا يليق به قولا وفعلا ونظرا... وحقيقة ما لا يعنيه ما لا يحتاج إليه في ضرورة دينه ودنياه، ولا ينفعه في مرضاة مولاه بأن يكون عيشه بدونه ممكنا، وهو في استقامة حاله بغيره متمكنا، وذلك يشمل الأفعال الزائدة والأقوال الفاضلة... ولعل الحديث مقتبس من قوله تعالى: {والذين هم عن اللغو معرضون} [المؤمنون: 3]".

(مفہوم)  : "یعنی  آدمی کے مسلمان ہونے کی ایک خوبصورتی اور اس کے ایمان کا ایک کمال یہ ہے کہ وہ "لایعنی" کو چھوڑ دے؛ اور لایعنی ان باتوں، کا موں اور سوچوں کو کہتے ہیں، جونہ تو آدمی کے لیے اہم ہوں اور نہ ہی اس کے لائق ہوں، مطلب:   ایسی چیزیں جن کی آدمی کو نہ دنیا میں ضرورت ہو، نہ آخرت میں، اور وہ اللہ تعالی کو راضی کرنے کے لیے بھی کسی کام کی نہ ہوں، تو انہیں چھوڑ دینا ہی بہتر  ہے"۔

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، ج7، ص3040، ط: دار الفكر، بيروت)

ایک اور حدیثِ مبارکہ ہے:

’’عن ابن عمر رضي الله عنهما قال:  قال رسول الله صلی الله علیه وسلم: من تشبه بقوم فهو منهم.‘‘

(سنن أبي داؤد، ج2، ص559، ط: دار السلام)

(قفط واللہ أعلم)


فتوی نمبر : 144501100303

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں