کیا سال گرہ یا برسی منانا دینِ اسلام میں جائز ہے؟
واضح رہے کہ قرآن وسنت، صحابہ وتابعین،ائمۂ مسلمين اور سلفِ صالحين سےسالگره اور برسی منانے كا كوئی ثبوت نہيں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور سلفِ صالحین سے کسی کی پیدائش کے دن پر خوشی منانا یا کسی کے انتقال پر ہرسال برسی مناناثابت نہیں ہے، بل کہ يہ غير مسلموں كا طريقہ ہے، قرآن وحدیث میں غیر مسلموں کے طور طریقے کو اپنانے سے اور ان سے محبت کا اظہار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
چنانچہ اللہ تعالی ارشاد ہے:
"وَلَا تَرْكَنُوٓاْ إِلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ فَتَمَسَّكُمُ ٱلنَّارُ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ ٱللَّهِ مِنْ أَوْلِيَآءَ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ."(ہود:113)
ترجمہ: "اور(اے مسلمانو) ان ظالموں کی طرف مت جھکو کبھی تم کو دوزخ کی آگ لگ جائے اور (اس وقت) خدا کے سوا تمہار کوئی رفاقت کرنے والا نہ ہو پھر حمایت تو تمہاری ذرا بھی نہ ہوگی"۔
(بیان القرآن، ج:2، ص:235، ط:رحمانیہ)
اور حدیث پاک میں غیروں کی مشابہت سے منع فرمایاہے:
"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم فهو منهم» . رواه أحمد وأبو داود".
(مشکاۃ المصابیح، ج:2، ص:388، ط:رحمانیه)
اس کی تشریح میں ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مشابہت سے مراد لباس، ظاہری شکل وصورت، اخلاق اور شِعار میں وغیرہ میں مشابہت مراد ہے،خیر کے کاموں میں اولیاء اور صلحاء کی مشابہت اور شر کے کاموں میں فجار و فساق کی مشابہت یہ سب اس کے ضمن میں داخل ہے، چنانچہ مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(من تشبه بقوم) : أي من شبه نفسه بالكفار مثلا في اللباس وغيره، أو بالفساق أو الفجار أو بأهل التصوف والصلحاء الأبرار. (فهو منهم) : أي في الإثم والخير. قال الطيبي: هذا عام في الخلق والخلق والشعار، ولما كان الشعار أظهر في التشبه ذكر في هذا الباب".
(کتاب اللباس، ج:8، ص:222، ط:دارالکتب العلمیه)
مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر فتاویٰ دیکھیے:
کیا اسلام میں سال گرہ منانے کی کوئی گنجائش ہے؟
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144403100902
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن