کیا پیدل حج کے لیے جانا جائز ہے (آج کل کے اس جدید دور میں )؟ آگاہ کیجیے!
صورتِ مسئولہ میں آج کل کے اس جدید دور میں بھی پیدل حج پر جانا چاہتا ہے اور اتنی استعداد بھی ہو کہ راستے کی مشقت کو سہہ سکتا ہے تو جانا منع نہیں ہے ، بشرطیکہ شہرت اور نمود نمائش مقصود نہ ہو ، اگر شہرت اور نام ونمود مقصود ہو تو ریاکاری پر ثواب نہیں ملے گا۔ تاہم سواری کی سہولت ہونے کے باوجود پیدل جا نابھی درست ہے ۔
مزید دیکھیے:
حدیث شریف میں ہے :
"عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها وعندها امرأة، قال: «من هذه؟» قالت: فلانة، تذكر من صلاتها، قال: «مه، عليكم بما تطيقون، فوالله لا يمل الله حتى تملوا".
(بخاری شریف، باب احب الدین الی اللہ عزوجل ادومه، ج: 1، صفحہ: 17، صفحہ: 43، رقم الحدیث: 43، ط: دار طوق النجاة (مصورة عن السلطانية بإضافة ترقيم ترقيم محمد فؤاد عبد الباقي)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے میرے پاس ایک عورت تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کون ہے؟ میں نے کہافلاں عورت ہےجو اپنی نماز کا ذکر کر رہی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑو تم پر وہ لازم ہے جو تمہارے بس میں ہے اللہ تعالیٰ نہیں اگتاتےجب تک تم نہ اگتا جاؤ۔
حدیث شریف میں ہے :
"عن أنس قال: نذرت امرأة أن تمشي إلى بيت الله، فسئل نبي الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك؟ فقال: «إن الله لغني عن مشيها، مروها فلتركب."
(سنن ترمذی، باب ما جاء فيمن يحلف بالمشي و لايستطيع، ج: 4، صفحہ: 11، رقم الحدیث: 1536، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)
ترجمہ:حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک پیدل سفر کرے، پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس کے پیدل چلنے سے بے نیاز ہے اسے کہو کہ وہ سوار ہو کر جائے۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144404101811
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن