بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کاروبار کاحکم


سوال

 میں آن لائن کاروبار کرتا ہوں ،میں جن پروڈکٹس کا کاروبار کرتا ہوں وہ میرے اپنے نہیں ہیں، بلکہ میں ایک کمپنی  کے لیے ورک کرتا ہوں ،ان  کے لیے آر ڈر  لاتا ہوں ،کیا میرے  لیے جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اکثر آن لائن کاروبار میں محض اشتہار وتصویردکھلاکر کسی پر سامان  فروخت  کیاجاتاہے اور بعد میں وہ سامان  دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیاجاتاہے یہ صورت (کمپنی کرے یا کوئی فرد)جائز نہیں ہو گی ؛ اس لیے کہ بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہیں ہوتی ہے اور وہ غیرکی ملکیت میں موجودسامان کو فروخت کرتاہے جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔لیکناگر مذکورہ کاروبار میں سائل کمپنی سےسامان لے کر قبضہ کرے پھر اس کو فروخت کرے تو یہ کاروبار شرعاً جائز ہو گا،اور اس کمپنی کے لیے ورک کرنا بھی جائز ہو گا۔

مزید دیکھیے:

ڈراپ شپنگ کے ذریعے کمائی کا حکم

ایمازون میں ڈراپ شپنگ کرنے کا حکم

صحیح مسلم میں ہے:

"(1525) حدثنا ‌يحيى بن يحيى ، حدثنا ‌حماد بن زيد . (ح) و حدثنا ‌أبو الربيع العتكي، ‌و قتيبة قالا: حدثنا ‌حماد، عن ‌عمرو بن دينار، عن ‌طاوس، عن ‌ابن عباس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: « ‌من ‌ابتاع طعامًا، فلايبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: و أحسب كل شيء مثله."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج: 5، ص: 7، رقم: 1525 ،ط:دار الطباعة العامرة تركيا)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه و لو من بائعه ... و الأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: و فسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: و نفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان و الفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، و كثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع الخ، ج:۵، ص: ۱۴۷، ۱۴۸،ط: سعید)

فتاویٰ  ہندیہ میں ہے:

"من حكم المبيع إذا كان منقولاً أن لايجوز بيعه قبل القبض."

(کتاب البیوع، الباب الثاني، الفصل الثالث، ج:۳، ص: ۱۳، ط:رشیدیة )

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100600

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں