بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایمازون میں ڈراپ شپنگ کرنے کا حکم


سوال

آن لائن مارکیٹ جیسے ایمازون وغیرہ پر ڈراپ شپنگ کا کام کرنا کیسا ہے ؟

ڈراپ شپنگ کہتے ہیں کہ کسی اور کی چیز ہو اور میں اس چیز کو آن لائن بیچ دوں اور یہ چیز میرے قبضے میں بھی نہیں ہے، بلکہ آن لائن ہی ہے اور پھر اس چیز کے بیچنے کا میں ایک مقررہ کمیشن لوں۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ ایمازون ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، شرعاً یہ کام دلالی کے حکم میں ہے، جس کی اجرت لینا جائز ہے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع نہ ہو جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے، جیسے مبیع کاحرام ہونا، لہٰذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہوں، جو چیزیں شرعاً حرام ہیں، ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جس کمپنی کی مصنوعات کی تشہیر کرنا ہو اس کمپنی کی طرف سےمصنوعات کے حقیقی اوصاف، قیمت وغیرہ واضح طور پر درج ہو۔ سامان نہ ملنے یا غبن (دھوکہ) ہوجانے کی صورت میں مصنوعات خریدنے کے لیے جمع کی گئی رقم کی  واپسی کی ضمانت دی گئی ہو۔ مزید یہ کہ آرڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں کسٹمر کو آرڈر کینسل کرنے کا بھی اختیار ہو۔ نیز آن لائن تجارت کرنے والےایسے ادارے اور افراد بھی ہیں جن کے یہاں مصنوعات موجود نہیں ہوتیں، محض اشتہارات ہوتے ہیں، اس لیے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کمپنی کے پاس مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔

2۔ واضح رہے کہ  شریعتِ  مطہرہ  میں جو  شرائط خرید و فروخت  کے لیے  مقرر کی گئی ہیں، ان میں سے ایک شرط یہ  بھی ہے کہ  منقولی اشیاء  میں بائع (بیچنے والا)  جس چیز کو  بیچ  رہا  ہو  وہ  اس کا مالک ہو  اور  اس پر خود یا وکیل کے ذریعہ قبضہ بھی  رکھتا ہو، اگر وہ ایسی چیز بیچتا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں تو بیع درست نہیں ہوتی، بلکہ باطل شمار ہوتی ہے۔

صورتِ مسئولہ  میں  سائل  نے  ڈراپ شپنگ کی جو صورت سوال میں ذکر کی ہےکہ بغیر قبضہ کیے آگے بیچ دینا، یہ صورت شرعًا ناجائز ہے؛ کیوں کہ اس میں بیچنے  والا  وہ  چیز  خریدنے کے بعد اپنے قبضے میں لانے  سے پہلے ہی کسٹمر (خریدار)کو بیچ دیتا ہے جو بیع قبل القبض (یعنی کسی چیز پر قبضہ کرنے سے پہلے اسے فروخت کرنا) میں داخل ہے اور بیع قبل القبض شرعاً ناجائز ہے۔ تاہم سائل وکیل بالشراء (خریداری کا وکیل) ہونے کا معاہدہ کرسکتا ہے، یعنی کسٹمر سائل کو خریداری کا وکیل بنادے اور سائل وکیل بن کر مطلوبہ چیز کو مؤکل (کسٹمر) کے لیے خرید ے پھر اسے فراہم کردے، نیز ایک صورت یہ بھی درست ہے کہ سائل اپنے کسٹمر کے ساتھ   اس کی مطلوبہ چیز کی بیع کا وعدہ کرے کہ یہ چیز میں آپ کو اتنی قیمت میں فروخت کروں گا اور جب وہ چیز قبضہ میں آجائے تو کسٹمر سےعقدِ بیع کرکے وہ چیز کسٹمر کو ارسال کردے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ‌الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف."

وفي حاشيته:

"(قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف."

(كتاب البيوع، فصل فيما يدخل في البيع تبعا وما لا يدخل، ج: 4، ص: 560، ط: دار الفكر بيروت)

ترمذی میں ہے:

"عن حكيم بن حزام قال: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يأتيني الرجل يسألني من البيع ما ليس عندي، أبتاع له من السوق، ثم أبيعه؟ قال: ‌لا ‌تبع ‌ما ‌ليس ‌عندك."

(أبواب البيوع، باب ما جاء في كراهية بيع ما ليس عندك، ج: 2، ص: 525، ط: دار الغرب الإسلامي بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ومنها) وهو شرط انعقاد البيع للبائع أن يكون مملوكا للبائع عند البيع فإن لم يكن لا ينعقد، وإن ملكه بعد ذلك بوجه من الوجوه إلا السلم خاصة، وهذا بيع ما ليس عنده «، ونهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع ما ليس عند الإنسان، ورخص في السلم."

(کتاب البیوع، ج: 5، ص: 147، ط: دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144309100011

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں