بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

نقصان پہنچانے والے آوارہ کتوں کو مارنے کاحکم


سوال

کتے زیادہ ہوجائیں تو ان کو مارسکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ احادیثِ مبارکہ میں جن موذی جانوروں کو قتل کرنے کی صراحت کے ساتھ اجازت ہے ان میں ایک کتا بھی ہے۔

1:چھپکلی ،    2:چوہا ،    3:بچھو ،    4:سانپ ،     5:چیل ،     6:کوا ،     7:کتا۔

 کتے موذی ہونے کے ساتھ ساتھ چوں  کہ باعث نقصان بھی ہیں، اس وجہ سے  ایسے کتوں کو مارنا جائز ہے، لیکن موذی جانوروں کو قتل کرنے میں بھی ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ انہیں تکلیف کم سے کم ہو، مثلاً: گولی وغیرہ سے قتل کرنا یا تیز چھری سے ذبح کرنا وغیرہ۔ اور درندوں کو بھی تڑپا یا ترسا کر مارنے کی شرعًا اجازت نہیں ہے۔

مزید دیکھیے:

بلا وجہ کتے کو مارنا

بلاوجہ کتے کو مارنا جائز نہیں ہے

صحیح مسلم میں ہے:

"عن نافع  قال عبد الله  سمعت النبيصلى الله عليه وسلم يقول: "خمس من الدواب  لا جناح علي من قتلهن في قتلهن: الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور".

(كتاب الحج، باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج:1، ص:382، ط:قديمى كتب خانه)

اکمال المعلم شرح صحیح مسلم میں ہے:

"وقيل: بل المراد بتعيين هذه الخمسة التنبيه على ما شابهها في الأذى، وقاسوا سائر السباع على الكلب العقور، وسائر ما يتصدى للافتراس من السباع، وعلى الحدأة والغراب ما في معناهما، وإنما خص لقربهما من الناس، ولو وجد ذلك من الرخم والنسور لكانت مثلها، وكذلك نبه بالفأرة على ما ضرره مثلها وأشذ منها كالوزغ، وكذلك نبه بالعقرب على الزنبور، وبالحية والأفعى على أشباهها من ذوات السموم والمهلكات".

(كتاب الحج،باب مايندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج:4، ص:108، ط:دارالکتب العلمة)

فتاوی شامی ہے:

"(وجاز قتل ما يضر منها ككلب عقور وهرة) تضر (ويذبحها) أي الهرة (ذبحًا) ولايضر بها؛ لأنه لايفيد، ولايحرقها وفي المبتغي: يكره إحراق جراد وقمل وعقرب،(قوله: وهرة تضر) كما إذا كانت تأكل الحمام والدجاج زيلعي (قوله ويذبحها) الظاهر أن الكلب مثلها تأمل (قوله يكره إحراق جراد) أي تحريما ومثل القمل البرغوث ومثل العقرب الحية."

(مسائل شتی، ج:6، ص:752، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100825

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں