بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بلاوجہ کتے کو مارنا جائز نہیں ہے


سوال

زید نے  کافی دنوں سے اپنے یہاں ایک کتا پال رکھا ہے اور وہ  اس پر پیسے بھی خرچ کرتا  تھا، لیکن وہ اب اس کتے کو  اپنے یہاں  نہیں رکھنا چاہتا ؛ اس کے لیے وہ اس کتے کو دور لےجا کر چھوڑ آیا، پھر بھی وہ اس کے یہاں چلا آتا ہے تو  اب اس کتے کو زید کے  لیے جان سے ماردینا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ جانوروں اور کھیتی کی حفاظت   اور شکار کے  مقصد کے علاوہ  شوقیہ طور پرکتا پالنا شرعاً جائز نہیں  ہے۔  حدیث شریف میں ہے کہ:  رحمت کے فرشتے اس  گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں  کتا اور  تصاویر ہو ۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ:  جس شخص نے جانور اور کھیتی وغیرہ کی حفاظت یا شکار کے علاوہ کسی اور مقصد سے کتا پالا، اس کے ثواب میں ہرروز ایک قیراط کم ہوگا۔ (ایک روایت میں دو قیراط کا ذکر ہے)۔

لہذا  صورتِ  مسئولہ  میں  مذکورہ مقاصد کے علاوہ  شوقیہ طور پر کتا پالنا ہی جائز نہیں تھا، بہرحال اگر  مانوس کر لیا ہے تو اب بغیر کسی وجہ کے  اس  سے مارنا جائز نہیں ہے۔  حدیث شریف میں  کلبِ عقور ( کاٹنے والے/موذی کتے)  کو مارنے کی اجازت  ہے،  اس کے علاوہ مارنا جائز نہ ہو گا۔

حدیث شریف میں ہے:

"حدثنا ابن جريج، قال: قلت لنافع: ماذا سمعت ابن عمر، يحل للحرام قتله من الدواب؟ فقال لي نافع: قال عبد الله: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " خمس من الدواب لا جناح على من قتلهن، في قتلهن: الغراب، والحدأة، والعقرب، والفأرة، والكلب العقور."

(صحیح مسلم، باب ما يندب للمحرم وغيره قتله من الدواب في الحل والحرم، ج: 2، صفحہ: 858، رقم الحدیث: 77،ط:  دار إحياء التراث العربي - بيروت) 

وفیہ ایضاً:

"حدثنا يحيى بن يحيى، وأبو بكر بن أبي شيبة، وعمرو الناقد، وإسحاق بن إبراهيم، قال يحيى، وإسحاق: أخبرنا، وقال الآخران: حدثنا سفيان بن عيينة، عن الزهري، عن عبيد الله، عن ابن عباس، عن أبي طلحة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لا تدخل الملائكة بيتًا فيه كلب ولا صورة»."

(صحیح مسلم،  باب لا تدخل الملائكة بيتا فيه كلب ولا صورة، ج: 3، صفحہ: 1665، رقم الحدیث: 83، ط:  دار إحياء التراث العربي - بيروت)

سنن ترمذی میں ہے:

"حدثنا الحسن بن علي الحلواني، وغير واحد، قالوا: أخبرنا عبد الرزاق قال: أخبرنا معمر، عن الزهري، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن أبي هريرة، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من اتخذ كلبًا إلا كلب ماشية، أو صيد، أو زرع، انتقص من أجره كل يوم قيراط» : هذا حديث صحيح."

(سنن الترمذی، باب ما جاء من أمسك كلبا ما ينقص من أجره، ج: 4، صفحہ: 80، رقم الحدیث: 1490، ط:  شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201413

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں