بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

موجودہ حالات میں دینی ویڈیو کے بغیر بچوں کی تربیت کیسے کریں؟


سوال

1- آپ کے فتاوی پڑھتا رہتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ تصویر اور ویڈیو کی گنجائش عمومی طور پر  نہیں ہے جب کہ کچھ  علمائے کرام کے یو ٹیوب پر چینلز بھی ہیں۔ حالیہ دور،  کہ جس میں لوگ کتب بہت کم پڑھتے ہیں اور ویڈیوز کی طرف جلد متوجہ ہو جاتے ہیں، کیا اس میدان یعنی یو ٹیوب اور ٹی وی چینلز، فیس بک، ٹوئٹر، ٹک ٹاک و دیگر سوشل میڈیا کو سراسر کفر و الحاد کے علمبرداروں اور فاسقین کے سپرد کرنا نامناسب نہ ہوگا؟

2-  بچوں کو سپائیڈر مین، سپر مین اور کیپٹن امریکا جیسے رنگین، خوبصورت، محیرالعقول کارنامے کرتے ہوئے جیتے جاگتے، چلتے پھرتے کرداروں سے ہٹا کر محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان، ایوبی و غزنوی جیسے بلیک اینڈ وائٹ کتابوں کے بچوں کی سمجھ میں نہ آنے والے حروف میں پوشیدہ کرداروں کی طرف کیسے لایا جائے؟ بچوں پر ظلم یہ ہے کہ ان کے چھوٹے موٹے پاپڑ سے لے کر کورس کی کتاب تک ہر طرف عریاں ٹانگوں والی "نیک پریاں" ہیں، ساز بجا کر دنیا کی خدمت کرتا ہوا "پائپر" ہے اور زبان دانی سکھانے کے نام پر چھوٹی چھوٹی نظموں کے ساتھ بجتا ہوا میوزک ہے! ایسے عالم میں بچوں کو دیندار بنانے کے لیے باقی دنیا سے کاٹا جائے تو وہ ایک محرومی کے احساس کا شکار محسوس ہوتے ہیں۔ ایسی کیا پالیسی اپنائی جائے جو بچوں کی دلچسپی کا مرکز و محور خیالی دنیا کی بجائے اسلامی طرز زندگی بن جائے؟ ایسی کوئی سائٹ ہو تو ضرور بتائیے۔

جواب

بچوں کی ذہنی تربیت اور کردار سازی میں سب سے زیادہ ہاتھ  ان کے مربی والدین کا ہوتا ہے۔

اگر والدین کا ذہن یہ ہو کہ دین سیکھنے کی اصل جگہ مساجد، مدارس و دینی محافل ہیں جس میں بزرگانِ دین کی صحبت اور نیک صالح مسلمانوں سے اختلاط کا موقع ملتا ہے، تو بچوں کی دینی تربیت کے لیے ناجائز ذرائع کی محتاجی کا احساس نہیں رہےگا۔

 نیز یہ کہ جن خرافات اور ناجائز چیزوں سے عموماً واسطہ پڑ جاتا ہے، اس کا سامنا کرتے وقت جب رد عمل کے طور پر ان کی کراہت بچے اپنے والدین کے چہروں پر محسوس کر لیں گے تو انہیں اسلامی طرزِ زندگی کا ایک بہت بڑا سبق بداہتاً ہی مل جائے گا۔

خلاصہ یہ ہے کہ جتنی ضرورت اس بات کی محسوس کی جاتی ہے کہ موجودہ حالات میں پھیلے ہوئے فتنوں میں بچوں کی تربیت کیسے کریں؟ اس سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی تربیت کرنے والے مربی اپنی دینی اصلاح کی فکر کریں اور ناجائز چیزوں سے متاثر ہوئے بغیر جائز چیزوں کے ذریعہ اپنے بچوں کی تربیت کرنے کا عزم کریں چاہے، اس میں کچھ مشقت اور خلافِ طبیعت باتوں کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

 اگر مربی والدین ہی کا یہ ذہن ہو کہ بچوں کی تربیت بیٹھے بیٹھے کسی اچھے یوٹیوب چینل وغیرہ کی ویڈیو دکھا کر نی ہے تو اتنا بڑا مقصد حاصل کس طرح ہوگا؟

حقیقت یہ ہے کہ اسلام ایک مکمل اور جدا نظامِ حیات ہے، جس کے بتائے ہوئے اصول ابدی اور یقینی کامیابی کے ضامن ہیں، موجودہ دور کے مسلمان کی ایک بنیادی غلطی یہی ہے کہ وہ غیروں کے طور  طریقے دیکھ کر احساسِ کم تری کا شکار ہوگیا ہے، اور انہیں کی نقالی میں دیکھا دیکھی افکار و نظریات سے لے کر وضع قطع تک سب انہیں کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں ہے، خداوندتعالیٰ و حدہ لاشریک لہ کے بندے اور نفس و شیطان کے بندے میں نمایاں فرق ہونا ہی چاہیے، جس کا مقصدِ زندگی صرف دنیاوی زندگی کی عارضی، فانی اور غیر حقیقی کامیابی بلکہ اس کی بھی ظاہری چکا چوند ہو، ایک مسلمان اسے اپنی نسلوں کی تربیت کے لیے کیسے معیار بناسکتاہے؟ جس کی نگاہ ہمیشہ آخرت کی کامیابی اور اللہ تعالیٰ کی خوش نودی پر ہوتی ہے، اقبال مرحوم نے درست کہا:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رُسولِ ہاشمی

اُن کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری

دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رُخصت تو  ملت بھی گئی

مزید تفصیل کے لیے ان مضامین کا مطالعہ کریں :

ٹی وی چینلوں کا ”رنگین اسلام“ (پہلی قسط)

میڈیا کا ”رنگین اسلام“ (دوسری قسط)

نیز بچوں کی تربیت کے حوالے سے ’’اسلام اور تربیتِ اولاد‘‘ (مترجم: حضرت مولانا ڈاکٹر حبیب اللہ مختار شہید رحمہ اللہ ) کا مطالعہ انتہائی مفید ہوگا۔ اگر مذکورہ کتاب مکمل پڑھنا مشکل ہو تو اس کا خلاصہ ’’مختصر اسلام اور تربیت اولاد‘‘ (از مولانا حبیب اللہ مختار رحمہ اللہ) سے ہی استفادہ کرلیجیے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200245

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں